ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
نہیں ہے۔ اچھاکردار ترقی کرکے جنت اور سُورگ کی نعمتوں کی شکل اِختیار کرے گا اور برا عمل وکردار قدرتی اِرتقاء کے ساتھ نرک اور دوزخ کی مصیبت بن جائے گا۔ (٣) اِسلام اُس ہستی کا جو خالق ِ کائنات ہے اِس طرح تعارف کراتا ہے کہ وہ رب العالمین اور الرحم الراحمین ہے کائنات کے تمام طبقوں کا پیدا کرنے والا پالنے اور پوسنے والا، تمام مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان، تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا یعنی اِنسان اور اُس کے خالق اور مالک کا باہمی رشتہ محبت اور رحم و کرم کا رشتہ ہے وہ پروردگار ہے یہ پروردہ، وہ پالنے والا ہے اور یہ ایسا پالتو (پلاہوا) کہ جب اُس کا وجود ایک جرثومہ (کیڑے) کی شکل میں نہایت مہین اور حقیر تھا ١ جو ایک ایسی وہمی سی چیز تھا جس کا نظر آنا بھی مشکل تھا، تب سے ہی اِس کی پرورش شروع ہوئی، اُس وقت سے مناسب غذا فراہم کی گئی، اُس کی ضروریات کی ذمہ داری لی گئی اور اِس محبت، شفقت، دانشمندی اور ایسی بے نظیر ہنر مندی کے ساتھ کہ ممکن نہیں ہے کہ عالمِ وجود میں اِس کی کوئی نظیر کہیں مِل سکے۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ جیسے ہی اُس کی وِلادت ہوئی اُس کے لیے مناسب غذا کا اِنتظام اِس طرح کردیا گیا کہ کسی بھی زحمت اور محنت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ دیکھئے ! ماں کی مامتا بے چین ہو کر بڑی محبت سے اُس ننھے بچے کو چھاتی سے لگاتی ہے اُس محبت اور پیار کے وقت جہاں اُس کا منہ رہتا ہے، ٹھیک اُسی مقام پر قدرت نے دُودھ کے دُھنے (کوزے) بھر کر رکھ دیے ہیں ،یہ ننھا سا بچہ کچھ نہیں جانتا تھا کسی چیز کی اُس کو خبر نہیں تھی مگر قدرت نے اُس کو پیدائش کے ساتھ ہی یہ سکھادیا تھا کہ کس طرح ماں کے دُودھ کو منہ میں لے اور کس طرح اُس کو چوس کر دُودھ نکالے اور پیٹ میں پہنچائے جہاں وہ خود کارمشین کام کررہی ہے جو اُس دُودھ کو چھان کر صاف کرکے پکاتی ہے جس کی اسٹیم جان کا کام دیتی ہے اور جس کے مدبَر شدہ اور صاف کردہ اَجزاء تن بدن کا جز بن جاتے ہیں۔ (٤) ہمیں اِس بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ اِنسان کی پیدائش کس طرح ہوئی، وہ پہلے سے ١ جو قطرہ (نطفہ) کا بہت ہی اَدنیٰ سا جز تھا۔