ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
کی کھیتی میں بویا گیا۔ لیکن اِن گروہ پرستوں اور دھڑے بندیوں سے بلند ایک اور چیز بھی ہے جس کا نام ''اِنسانیت'' ہے جس کی تفسیر ہے اُصول پسندی، شرافت، رحم و کرم، عدل و اِنصاف اور اَعلیٰ اَخلاق کو عملی جامہ پہنانا، جو ایسی بلندو بالا ذات کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو اِنسان اور اِنسانیت کا خالق اور پروردگار اور تمام کائنات کا رب اور مالک ِ حقیقی ہے۔ اِس اِنسانیت کا فیصلہ ہے کہ اِنسان اپنے رب کے سامنے گردن جھکائے، اُس کی بڑائی کا سکہ دِل اور دماغ پر جمائے، اُس کے اِحسانات کو پہچانے اور شکر گزار بنے۔ یہ اِنسانیت رنگ نسل اور جغرافیہ کی حد بندی سے آزاد ہے، ہر ایک اِنسان میں مشترک ہے وہ صرف اُس کو نظروں سے گراتی ہے جو اپنے آپ کو اِنسانیت سے گرائے جو اِنسانیت کے تقاضوں کو پامال کرے اور خود اپنے ہاتھوں ذلیل ہو۔ یہ اِنسانیت مرد اور عورت کاصرف وہی فرق قبول کرتی ہے جو قدرت نے اُن کی فطرت میں رکھ دیا ہے یہ فرق کمزوری اور نزاکت کا فرق ہے جو لازمی طور پرصنف ِنازک (عورت) کورحم، مہربانی اور ناز برداری کا حقدار قرار دیتا ہے یہ فرق عورت کو ذلت خواری یا اِنسانی زندگی کے کسی شعبہ میں پسماندگی کا مستحق نہیں بناتا۔ یہ اِنسانیت اُس غرور سے نفرت کرتی ہے جودولت، سرمایہ یا حکومت اور اِقتدار کی وجہ سے پیدا ہو۔ وہ ہر ایک دولت مند (پونچی پتی) اور ہرایک صاحب اِقتدار سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اچھی طرح پہچان لے کہ اَوّل اور آخر وہ اِنسان ہے، اِنسانی برادری کا ایک فرد ہے، اِس کے بعد وہ اِس کا اِعتراف کرے کہ جودولت اُس کے ہاتھ میں ہے یا اِقتدار کی جس کرسی پروہ رونق اَفروز ہے وہ محض قدرت کااِحسان اور اُس کا اِنعام اورفضل و کرم ہے جس کی بناء پر اُس کا فرض ہے کہ وہ اِنسانوں کا ہمدرد، اِنسانیت کاخادم اور اپنے پیداکرنے والے کااِحسان ماننے والا اور شکرکرنے والا بنے، نہ یہ کہ وہ ظالم، جابر ،خودغرض، ذخیرہ اَندوز،لالچی اور بخیل بن کر دولت کی تجوریوں پر اَژدھے کی طرح کنڈل