ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
قومی وحدت پر کام کیا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا ہے، ریاست اپنا فرض تو اَدا کرے، لیکن وہ نہیں کرنا۔ پھر کہا گیا کہ ہر وہ مسلح تنظیم جوریاست کے خلاف اسلحہ اُٹھائے اور مذہب یا فرقے کا نام لے،اُسے ملٹری کورٹ میں پیش کیا جائے۔ ہم نے کہا : دہشت گردی، دہشت گردی ہوتی ہے، اُس سے مذہب کا کیا تعلق ہے ؟ اُس سے قومیت کا کیا تعلق ہے ؟ کہتے ہیں : نہیں، یہ جو پشاور کا واقعہ ہوا ہے۔ میںنے کہا : آپ یہ بتائیں کہ قانون کسی اُصول کے تحت بنتا ہے یا کسی واقعہ کی بنیاد پر بنتا ہے ؟ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا توکیا دہشت گردی نہیں ہورہی ؟ چلو ایک واقعہ ہو گیا، اُس واقعے سے لوگوں کے جذبات بھڑک اُٹھے، بڑے معصوم بچے اُس میں شہید ہوگئے، پورا صوبہ ہزارہ اور مالا کنڈ سے لے کر ڈیرہ اِسماعیل خان اور مردان تک کے بچے وہاںپڑھ رہے تھے، ہماری اپنی جماعت کے بہت سارے لوگوں کے بچے وہاں پڑھ رہے تھے، کچھ شہید ہو گئے، کچھ زخمی ہو گئے، یقینًا اِس پر ہم سب کو ناراضگی ہے، اَب اگر آپ قانون بناتے ہیں توقانون ضرور بنائیںلیکن دو چیزیں مد نظر ہونی چاہئیں، ایک قانون کے اَندر جامعیت ہو، جو اُس موضوع کے ہر پہلو کا اِحاطہ کرے،اور دُوسری چیز یہ کہ اُس قانون کے اِمتیازی طور پراِستعمال کے اِحتمال کو ختم کیا جائے۔ تحفظِ پاکستان آرڈیننس آیا تو ہم نے اُس وقت بھی یہی کہا کہ یہ کسی کے خلاف ناجائز اِستعمال نہ ہو، جو دہشت گرد ہے ملکی قانون کو توڑتا ہے اور ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اُس کو سزا ملے۔ اَب جناب ! اِس پر لڑائی شروع ہو گئی، ہم ڈٹ گئے کہ نہیں ! یہ اِمتیازی قانون ہے، عموماً ایک قانون بن جاتا ہے تو اُس کے بننے کے بعد یہ اِحتمال ہو تا ہے کہ یہ اِمتیازی اِستعمال ہو رہا ہے یا ہوسکتا ہے، یہاں تو یہ قانون اپنے مسودہ میں چیخ چیخ کر خود پکارتا ہے کہ میں نے اِمتیازی اِستعمال ہونا ہے۔