ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
''وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے محنت کرنے والی نہ ہو کہ جوتتی ہو زمین کو یا پانی دیتی ہو کھیتی کو، بے عیب ہو کوئی داغ اُس میں نہ ہو۔ '' اُنہوں نے چونکہ خود ہی سختی لازم کرنی چاہی لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی اُن پر سختی لازم فرما دی اور گائے کے لیے مختلف قیود مقرر فرمادیں۔ اَب اُنہیں ایسی گائے کی تلاش شروع ہوئی لیکن ایسی گائے کا مِلنا بہت مشکل تھا۔ بالآخر اُنہوں نے بڑی دِقت کے بعد ایسی گائے ڈھونڈ نکالی لیکن جب اُس کے مالک سے اُس کا سودا کرنا چاہا تو اُس نے گائے بیچنے سے اِنکار کردیا، اُنہوں نے بڑی مشکل سے ایک خطیر مال کے بدلے میں گائے بیچنے پر راضی کیا اور آخر کار گائے لے کراُسے ذبح کیا اور اُس کا ایک حصہ مقتول کو مارا جس سے وہ زِندہ ہو کر اپنے قدموں پرکھڑا ہو گیا اور اُس کے زخم سے دوبارہ خون بہنے لگا، لوگ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے اور اُن کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام ہمت کرکے آگے بڑھے اور اُس سے اِستفسار فرمایا تمہیں کس نے قتل کیا ؟ اُس نے بولے بغیر اپنے بھتیجے کی طرف اِشارہ کیا اور دھڑام سے زمین پر گرا اور مرگیا، اِس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُنہیں کھلی آنکھوں مشاہدہ کرادیا کہ وہ کس طرح مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سچ فرمایا : ( وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰ رَئْ تُمْ فِیْھَا وَاللّٰہُ مُخْرِج مَّاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذَالِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔) (سُورة البقرہ : ٧٣،٧٢) ''اور جب مار ڈالا تھا تم نے ایک شخص کو پھر لگے ایک دُوسرے پر دھرنے۔ اور اللہ کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے پھرہم نے کہا مارو اُس مُردہ پر اِس گائے کا ایک ٹکڑا اِسی طرح زندہ کرے گا اللہ مُردوں کو،اللہ دِکھاتا ہے تم کو اپنی قدرت کے نمونے تاکہ تم غور کرو۔'' (جاری ہے) ض ض ض