ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
اور میڈیا کے ویڈیو کیمروں سمیت ہم پر دَھاوا بول دیا ہے، چادر اور چار دیواری کے تقدس سمیت آپ نے ایک تعلیمی اِدارے کی حرمت کو بھی پامال کیا ہے۔ پولیس : جی وہ ہم لوگ چیکنگ کے لیے پنجاب یونیورسٹی بھی گئے ہیں۔ اَساتذہ : جی بالکل ! اور یونیورسٹی میں ہاسٹلز میں طلباء کی طرف سے پتھراؤ اور سرکاری گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی صورت میں آپ حضرات کا جو اِستقبال کیا گیا تھا وہ ہم کل کے اَخبارات میں پڑھ چکے ہیں لیکن اِس کے برعکس ہمارے اِدارہ میں کسی نے آپ لوگوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ پولیس : ہماری خفیہ اَیجنسیوں کی اِطلاع کے مطابق آپ کے جامعہ میں مسجد کے نیچے '' تہہ خانے اور بینکرز'' بنے ہوئے ہیں نیز یہاں'' سلنڈروں میں بارُود ''لایا جاتا ہے۔ اَساتذہ : خفیہ تہہ خانوں اور بینکرز کی حقیقت تو خیر مسجد دیکھنے سے بھی واضح ہوجائے گی اَلبتہ آپ کی ایجنسیز کے باکمال لوگوں کی لاجواب کار گردگی کا عالم یہ ہے کہ ہم نے خود رپورٹس میں دیکھا کہ ہمارے اِدارہ کا سربراہ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کو ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ شاید زندگی بھر اُن کے کبھی قدم بھی یہاں نہیں لگے، اور اِس جہانِ فانی سے کئی سال قبل کوچ کرجانے والوں کو بھی یہ باخبر لوگ یہاں تلاش کرتے دِکھلائی دیتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے سلنڈروں کی تو عرض ہے کہ ہم اَساتذہ سمیت جامعہ کی تمام اِنتظامیہ نماز وغیرہ کے لیے مسجد میں آتے جاتے رہتے ہیں بلکہ ہمارے ہاں تو اَسباق بھی مسجد ہی میں پڑھائے جاتے ہیں، تو جناب ہمارے خیال میں کوئی بھی سمجھ دار اِنسان ہرگزیہ خطرہ مول نہیں لے گا کہ اُس کے قریب ایسی خطرناک چیزیں موجود ہوں جو سب سے پہلے خود اُس کی اپنی جان کے لیے نقصان دہ ہوں جبکہ آپ تو یہاں سے چالیس پچاس کلو میٹر دُور رہتے ہیں یہ چیزیں آپ سے پہلے