ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
قسط : ٦ تعلیم النسائ ( اَز اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) زنانہ اسکول قائم کرانے کی شرائط اور بہتر شکل حضرت تھانوی کے قائم کردہ زنانہ اسکول کی صورت : میں نے تھانہ بھون میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ قائم کیا ہے لڑکیاں ایک معلمہ کے گھر جمع ہو جاتی ہیں (وہی گھر گویا لڑکیوں کا مدرسہ ہے) اور میں اُن کی خدمت کر دیتا ہوں لیکن میں نے یہاں تک اِحتیاط کر رکھی ہے کہ میں خود کسی لڑکی کو بھیجنے کی ترغیب نہیں دیتا ،یہ اُن ہی معلمہ سے کہہ دیا ہے کہ یہ سب تمہارا کام ہے تم جتنی لڑکیوں کو بلاؤگی تنخواہ زیادہ ملے گی۔ اُس مدرسہ میں ماہانہ اِمتحان بھی ہوتا ہے سو لڑکیاں کبھی تو اِمتحان دینے کے لیے گھر پر چلی آتی ہیں اور میری اہلِ خانہ (بیوی) یا میرے خاندان کی کوئی بی بی اُن کا اِمتحان لے لیتی ہے (اِمتحان میں نہیں لیتا) اور کبھی لڑکیوں کو نہیں بلایا جاتا بلکہ ممتحنہ (اِمتحان لینے والی) وہیں چلی جاتی ہیں اوراِمتحان لے لیتی ہیں صرف اِمتحان کا نتیجہ میرے سامنے پیش ہوجاتا ہے اور باقی اُن پر میرا نہ کوئی اَثر اور نہ دخل ہے ،نمبر ممتحنہ دیتی ہیں اُن نمبروں پر اِنعام میں تجویز کرتاہوں۔ اَلحمد للہ ! اِس طرزپر مدرسہ برابر چلا جا رہا ہے اورایک بات بھی کبھی خرابی کی نہیں ہوئی، اَلغرض لڑکیوں کی تعلیم کا اِنتظام یا توا ِس طورپر ہو کہ لڑکیاں جمع نہ ہوں اپنے اپنے گھروں پریا محلہ کی بیبیوں سے تعلیم پائیں لیکن آج کل یہ عادة ًبہت مشکل ہے یا اگرایک جگہ جمع ہوں تو پھر یہ اِنتظام ہو کہ مردوں سے سابقہ نہ رکھیں اور اپنی مستورات سے نگرانی کرائیں اُن سے خود بات چیت تک بھی نہ کریں،