ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
یہ فتوحات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت ِ قتالِ مرتدین کے مثل تھیں، اگر اُن کی کوشش نہ ہوتی اور یہ بغاوتیں فرو نہ ہوتیں تو نتیجہ خدا جانے کیا ہوتا اور کفر کی طاقتیں جو ٹوٹ چکی تھیں پھر کس شان سے عود کرتیں ؟ قسم دوم : اَفریقہ کی وہ جنگ ِ عظیم جو اِسلامی تاریخ میںحَرْبُ الْعَبَادِلَہْ کے نام سے مشہور ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اَفریقہ کے فتح کرنے کے لیے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکومت عطا فرمائی اور اُن سے فرمایا کہ اَفریقہ میں جس قدر مالِ غنیمت حاصل ہوگا اُس کا پچیسواں حصہ تم کو دیاجائے گا۔ اُس زمانے میں اَفریقہ کاحاکم قیصر رُوم کی طرف سے جر جیر نامی ایک شخص تھا،طرابلس سے لے کر طنجہ تک اُس کی حکومت تھی اور بڑا متکبر و مغرور تھا، اُس نے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے ایک لاکھ بیس ہزار سوار فراہم کیے اُدھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ایک بڑی فوج مرتب کر کے روانہ فرمائی جس میں اَکابر صحابہ مثل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے تھے۔ حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے مصر سے ایک بڑی فوج فراہم کی، یہ سب اِسلامی فوجیں بہ ہیبت اِجتماعیہ اَفریقہ پہنچیں اور معرکہ کا بازار گرم ہوا۔ تاریخ ِ اِسلام میں یرموک اور قادسیہ کی لڑائی کے بعد اِس لڑائی کا نمبر رکھا گیا، چالیس دِن تک یہ لڑائی جاری رہی،روزانہ صبح سے دوپہر تک لڑائی رہتی تھی اِس کے بعد دونوں فوجیں خستہ ہو ہو کر اپنے خیموں میں آرام کرتی تھیں ،چند روز کے بعدحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ایک تازہ دم فوج دے کر کمک کے لیے روانہ فرمایا اور تاکید کی کہ جلد سے جلد اَفریقہ پہنچ کر اپنے بھائیوں کی مدد کرو، جس وقت یہ تازہ فوج اَفریقہ پہنچی ہے مسلمانوں کی خوشی کاکیا پوچھنا، سب نے ایک دم نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ جو اِس فوج کے سردار تھے کچھ خائف ہیں اور وجہ یہ معلوم ہوئی کہ جرجیر نے اپنی فوج میں یہ اِعلان کردیا ہے کہ جو شخص