ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
''غریب''مانتا ہے ''متمول''اَکڑتا ہے : اَب یہ کہتے ہیں لوگ آج کل کے دَور میں کہ پہلے معاشرہ درست ہو متمول ہو ہر ایک کو کھانے کو میسر ہو فراخ روزی حاصل ہو پھر یہ سزائیں نافذ کی جائیں اَب دو کپڑے بھی میسر نہ ہوں اور چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے ! حالانکہ بات یہ ہے کہ آدمی غربت میں تو مان بھی لیتا ہے اگر غربت نہ رہے تو سنتا بھی نہیں کسی کی ،پریشان حال ہو کوئی بات کہی جائے تو سمجھ میں آجاتی ہے اور جو اَمیر ہو دولت مند ہو وہ تو سمجھتا ہے کہ دولت مند بھی میں ہی ہوں عقلمند بھی میں ہی ہوں تو دُوسروں کی بات تو خاطر میں ہی نہیں لاتا ۔ نبی علیہ السلام نے عوام کی ''فکری اِصلاح'' فرمائی : تو معاشرہ کی درستگی اُس دَور میں کیسے ہوئی تھی ؟ وہ فکری لحاظ سے ہوئی تھی کہ اِن کا ذہن صحیح طرح سوچنے لگے حق کو حق ،باطل کو باطل اور دُنیا کی بہ نسبت آخرت پر نظر یہ رہنے لگے تو پھر اَحکامِ اِلٰہیہ اُترنے شروع ہوگئے مدینہ منورہ میں، سزائیں وغیرہ حدود یہ سب اُتریں۔ شروع میں شراب حرام نہ تھی، غزوۂ اُحد میںہدایات کی خلاف ورزی کی وجہ : مدینہ منورہ جب تشریف آوری ہوئی ہے تو اُس وقت تک شراب منع نہیں تھی اور شراب پیئے ہوئے تھے صحابہ کرام، اُحد کے میدان میں شہید جو ہوئے ہیں اُن میں بہت سے ایسے تھے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ شراب تو اُن کے پیٹ میں ہوگی اُس وقت جو اِبتداء میں شہید ہوگئے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی اُن میں شہید ہوئے ہیں اور بدر کے بعد اُن کا شراب اور نشہ اِس کا ذکر باقاعدہ آتا ہے حدیث کی کتابوں میں، یہ (غزوۂ اُحد کا قصہ)بھی حدیث کی کتابوں میں آتا ہے اور وہ جو بھول گئے تھے رسول اللہ ۖ کے اِرشاد کو وہ تیس صحابہ کرام کا یا پچاس کا جو ایک دستہ مقرر کیا تھا کہ اِدھر سے نہ ہٹنا چاہے ہمیں کامیابی ہو اورچاہے ہمیں شکست ہو اور چاہے ہماری بوٹیاں جانور نوچ لیں تمہیں یہاں سے نہیں ہٹنا، اُن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں رہی اور دماغ میں یہی آیا اور چل پڑے کیونکہ لڑائی