ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
جس وقت چوری کر رہا ہے عین اُس وقت وہ اِیمان کی حالت میں نہیںہے وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِن جس وقت شراب پیتا ہو اُس وقت وہ اِیمان کی حالت میں نہیں ہے۔ اِن لوگوں میں اِن تمام چیزوں کا رواج تھا، سزا نہیں تھی کسی نے چور ی کر لی، سزا کوئی نہیں ہے اُس کے لیے، حد کوئی نہیں ہے اور بدکاری کی مختلف شکلیں تھیں اور اُس میں کوئی حد نہیں تھی مقرر، سزا مقرر نہیں تھی، شراب عام چیز تھی کوئی بات تھی ہی نہیں خرابی کی اِس میں ،بہت کم ایسے ہیں کہ جنہوں نے شراب خود سے نہیں پی ، تاریخ میں اُن کے اَسمائے گرامی آتے ہیں وہاں ذکر ملتا ہے کہ اُنہوں نے یہ دیکھا کہ شراب پینے کے بعد عقل کام نہیں کرتی اور آدمی ایسی باتیں کرتا ہے کہ جس پہ لوگ ہنستے ہیں تو یہ دیکھ کر کہ یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ہنستے ہیں تو اُنہوں نے اَز خود ہی شراب کو اپنی طبیعت سے ناپسند کیا ورنہ منع نہیںتھا، اِبتدائے اِسلام میں بھی منع نہیں تھا۔ معاشرہ کو ''سلجھانا''اُس کو'' متمول'' کرنے سے زیادہ اہم ہے : اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی فرماتی ہیں کہ پہلے تو اِیمان کی طرف آپ نے دعوت دی جب اِیمان مضبوط ہو گیا تو پھر رسول اللہ ۖ نے اَ مَرْ اور نَہِی فرمایا کہ یہ کام کرو یہ نہ کرو اور اِس کی یہ سزا ہوگی پھر حکومت ایک طرح قائم فرمائی اور اَحکامِ اِلٰہیہ تدریجًا نازل ہوئے، آزاد معاشرہ کی پیداوار تھی جتنی جتنی برداشت ہوتی گئی اُتنے اُتنے اَحکام اُترتے چلے گئے ،چوری کے بارے میں پہلے تو نہیں اُترا تھا حکم کہ ہاتھ کاٹ دو ہاں جب معاشرہ'' سمجھ'' گیا ،یہ نہیں کہ'' متمول'' ہوگیا معاشرہ، بلکہ سمجھ گیا سُلجھ گیا ذہنی طور پر، ویسے غریب ہی تھے اور بہت غریب تھے کثرت سے۔ ایک صحابی نے تونماز پڑھ کے دِکھائی قصدًا ایک کپڑے میں، ایک چادر ( تہبند کے طور پر) باندھ رکھی تھی، ایک اَوڑھنے کی تھی جو اَوڑھنے کی تھی وہ پاس ہی ایک لکڑی کھڑی تھی اُس پر لٹکی ہوئی تھی تو اُن سے کسی نے پوچھا کہ جناب نے ایسے کیوں کیا ؟ اُنہوں نے کہا اِس لیے کہ تم جیسا کوئی آدمی مجھے دیکھے گا، دیکھے گا تو پوچھے گا، پوچھے گا تو بتاؤں گا کہ رسول اللہ ۖ کے زمانے میں دو کپڑے کس کے پاس ہوا کرتے تھے۔