ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
معذرت کے ساتھ تعاون کے طلبگار بھی ہوئے ۔اُن کے اِس اَخلاقی روّیے کی قدردانی کرتے ہوئے حسب ِسابق اَساتذہ نے اُن سے تعاون کیا اور یہ شرط رکھی کہ آپ چاروں طرف پھیلی ہوئی اپنی تمام نفری کو طلب کر کے جامعہ کے پھاٹک سے باہر کریں اور صرف آپ دو اَفسران ہمارے ساتھ مسجد کے اَندر چلیں ہم آپ کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں آپ ہمارے مہمان ہیں، اِس پر اَفسران نے اپنا اَسلحہ بھی اُتار کر اہلکار کے حوالہ کردیا اوراَساتذہ کی معیت میںچل پڑے۔ جامعہ کے اَساتذہ کرام اور سرکاری اَفسران کے باہمی مکالمہ کا مختصر خاکہ اَساتذہ ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں : ٣ اور ٤ مئی کی درمیانی شبجامعہ مدنیہ جدید میں پولیس اور سکیورٹی اِداروں کی طرف سے رات کی تاریکی میں اَچانک چھاپہ مارا گیا اِس کارروائی میںپولیس کی درجنوں گاڑیوں سمیت اَعلیٰ اَفسران نے حصہ لیاجامعہ کی اِنتظامیہ اور پولیس اَفسران کے درمیان ہونے والی گفتگو درج ذیل ہے : اَساتذہ : ہم آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ حضرات یہاں کیسے تشریف لائے ؟ پولیس اَفسران : او جناب ہم یہاں جنرل چیکنگ کے لیے آئے ہیں ۔ اَساتذہ : محترم ڈی ایس پی صاحبان ! یقینًا آپ کے علم میں ہوگا کہ اِدارہ ہذا کی طرف سے آج تک سرکاری اِداروں کے ساتھ حتی المقدور تعاون کیا گیا ہے پولیس یا دیگر سکیورٹی اِداروں کی طرف سے جب بھی کسی تعاون یا ریکارڈ کا مطالبہ کیا گیا تو اِدارہ نے کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا لیکن اِس سب کا صلہ ہمیں یوں دیا جاتا ہے کہ اِدارہ کے طلباء کے گھروں میں جا کر باقاعدہ طور سے اُن کے والدین کو اَیجنسیز کی طرف سے منع کیا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کو اِس جامعہ میں ہرگز مت بھیجیں اور آج ایک اور اِنعام ہمیں آپ لوگوں کی طرف سے یوں دیا گیا ہے کہ چھوٹی موٹی جنرل چیکنگ کے نام پر آپ نے پولیس کی درجنوں گاڑیوں، ٹارچ لائٹوں