ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
سے دُوری کا وبال ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ۖ کی سنتوں سے بے زاری کی نحوست دُنیا میں ہے، آخرت میں تو بعد میں آئے گی،یہاں اللہ نے دِکھادی کہ تجھے تو'' کھانے'' اور'' گوہ'' کا فرق ہی ختم ہوگیا، یہ وبال پڑا اِس عقل کا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ چمچے سے کھانا حرام ہے ،ہم بھی کھاتے ہیں چمچے سے لیکن ہاتھ سے کھانے کو برا جاننا، تہذیب کے خلاف سمجھنا اور چمچے کانٹے سے کھانے کو تہذیب سمجھنا یہ کفر کے قریب قریب ہے خطرناک ہے اِیمان کا خطرہ ہے اِس میں اگر جان بوجھ کر رہا ہے۔ یہ دینی مدرسوں کی عظمت اور کالجوں کی خرابی اِس کا فرق آج مسلمان کی آنکھوں کے سامنے سے اَوجھل ہے مگر کافروں کو پتہ ہے، وہ مدرسے کو اِس وقت اپنی بندوق کے نشانے پر لاچکے ہیں اور مسلمان اُس کا ہاتھ بٹا رہا ہے اِس کام میں، یہاں چٹائی ہے، بلڈنگ بھی اچھی نہیں، پلستر بھی نہیں ہوا ہوا، دیکھو ہمارا کالج کتنا اچھا ہے اُس کے گیٹ کے باہر چوکیدار باوردِی ہے۔ بھئی پیسہ ہے آسمان سے کوئی تھوڑاُترا ہے چوکیدار، یہ چیزیں وہاں پیسے سے آئی ہیں، یہاں پیسہ نہیں ہے ، پیسہ ہوگا تو ہوجائے گی یہاں بھی ، یہ اور زیادہ اچھا ہوجائے گا جو ضروری چیزیں ہیں دُنیاوی اِعتبار سے وہ بھی ہوجائیں گی۔ لیکن اگر نہیں ہیں تو اِس میں تو قصور خود مسلمان کا ہے اِس میں قصور اِس کے اَساتذہ کا نہیں ہے، اِس اِدارے کے طلباء کا نہیں ہے، اِس اِدارے کے مدرسین کا نہیں ہے، اِس میں توقصور مسلمانوں کا ہے۔ جتنی شکر ڈالوگے اُتنا میٹھا ہوگا۔ دیتے ہی نہیں، جب پیسہ مدرسوں کو چندے میں دیں گے تو صرف زکوة دیں گے،ثواب ہے اِس پر بھی ،جب کھلے (اور سچے) دل سے دیں گے آپ دیکھیں ساؤتھ اَفریقہ کے دینی مدرسے، دینی اِعتبار سے بھی اُونچے ہیں دُنیاوی اِعتبار سے بھی کالج یونیورسٹیاں اُن کی چمک دمک کے آگے ماند ہیں۔ جب اِسلام اُوپر تھا عروج پر تو قرطبہ میں دینی مدرسوں کی کیا شان و شوکت تھی، آج تک اُن کی تصویریں آتی ہیں، اسپین کے مدرسوں کی تصویریں، شاہکار ہیں اُن کی تعمیرات کا ۔ اِس میں تو قصور میرا نہیں ہے، اِن کا نہیں ہے ،اَساتذہ کا نہیں ہے، ہمارا ہے ہمارے طبقے کا ہے، ہماری حکومتوں کا ہے ، یہ تو شکر کرو کہ ایسی ٹوٹی پھوٹی کے باوجود دین زندہ کرنے کے لیے رُوکھی سوکھی کھا کر دین کی خدمت