ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
اُسے پتہ ہو کہ ختم ِنبوت کیا ہوتی ہے، نبوت شروع کہا ں سے ہوئی اور تکمیل کہاں پر ہوئی ؟ اُمت کسے کہتے ہیں ؟ اُسے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ پہلی اُمت اور اِس اُمت کا فرق کیا ہے ،جب اُسے یہ پتہ ہوگا تو خود بخود اُس کو سیاہ اور سفید کا فرق محسوس ہونا شروع ہوجائے گا، اَب اُسے پتہ نہیں چلتا کہ کیا سیاہ ہے، کیا سفید ہے اِس لیے کہ سکھایا ہی نہیں اُس کو ، اُسے پتہ ہو کہ اِستنجا کیسے ہوتا ہے اُسے پتہ ہو کہ سیدھے ہاتھ سے کرنا ہے یا اُلٹے ہاتھ سے کرنا ہے، اُسے پتہ ہو کہ کھاناکیسے کھایا جاتا ہے، چمچہ سے کھانا گناہ نہیں ہے لیکن ہاتھ سے کھانا زیادہ اَفضل ہے لیکن وہ ہاتھ سے کھانے میں گِھن کھاتا ہے کہتا ہے کہ یہ ہاتھ گندے ہوں گے ، اچھا نہیں لگتا لیکن پرلے درجے کا اَحمق ہے ! اللہ کے بندے اگر تُو اِتنا نازک اِتنانفیس ہے تو پھر جب اِستنجا کے لیے جاتا ہے تو پھرسرجری بکس لے کر جانا چاہیے تجھے ساتھ صاف کرنے کے لیے، اور توہاتھ سے اِستنجا کرتا ہے جب تو اِتنا نفیس ہے یہ غذا منہ سے پیٹ میں جارہی ہے جو پاک بھی ہے جوخوشبودار بھی ہے جو قیمتی بھی ہے جو دیکھنے میں بھی اچھی لگ رہی ہے سونگھے تو سانس اور گہرالینے کودل چاہتا ہے ،دیکھیں تو دیکھتے رہنے کو دِل چاہتا ہے پھر توکہتاہے کہ ہاتھ گندے ہوں گے ایسے اُنگلیوں کو بچاتا ہے جیسے کہ خدا نخواستہ پا خانہ کھارہا ہے ،یہ وبال ہے عیسائیوں کے پیچھے چلنے کا ،یہ وبال ہے یہودیوں کے پیچھے چلنے کا۔ قرآن کہہ رہا ہے ( اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ)یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُس سے بھی بد تر،جانور بھی یہ حرکت نہیں کرتا جو ہماری اَولاد اُن کے پیچھے چل کر کر رہی ہے ۔اَب جب تُواِتنا نفیس ہے تو اِستنجا کے لیے جاتے وقت دَستانے لے کر جانا چاہیے ،وہ پہن کر اِستنجا کرے ،اِتنا صاف پاک ہاتھ وہاں لگا رہا ہے اور وہاں پر یہ تمیز بھی نہیں کہ سیدھا لگانا ہے یا اُلٹا لگانا ہے۔ مدرسہ کا چھوٹا سا بچہ یا بچی ہو گی اُسے بھی پتہ ہوگا کہ اُلٹا لگانا ہے سیدھا نہیں لگانا توپھر کون زیادہ نفیس ہو یہ ہوا یا وہ ہوا ؟ پھر پلیٹ میں یہ غذا ہے پانچ سو روپے قیمت ہوگی اور زیادہ عمدہ بناؤ ایک ہزار روپے ایک پلیٹ کی قیمت اور عمدہ دو ہزار دس ہزار روپے لیکن جب یہ نکل رہی ہے دُوسری طرف سے جا کر تو وہ دس ہزار والی پلیٹ اورپانچ سو والی پلیٹ کی کوئی قیمت نہیں، اُس کو تو اپنے دست ِمبارک سے صاف کرتا ہے اور اِس کو کہتا ہے کہ اِس کو ہاتھ نہیں لگانا، طبیعت کے خلاف ہے، تہذیب کے خلاف ہے، یہ دین