ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
رہا ہے تو سیکھ لو اور اگر سکول میں کافر بچے داخل ہیں تو سکھادو چاہے وہ سائنس کا علم ہو، چاہے وہ ڈاکٹر ی کا علم ہو، چاہے زراعت کا علم ہو، چاہے فلکیات کاہو ،چاہے خلاؤں کا ہو، چاہے سمندری مخلوق کا ہو، چاہے جنگل کی معلومات ہوں،جو بھی ہوں، دریاؤں کا ہو، سمندروں کا ہو،فضاؤں کا ہو،روشنی سے متعلق ہو، اَندھیروں سے متعلق ہو ،جس چیز پر بھی تحقیق ہے اگر اُس کا مادّے سے تعلق ہے تو وہ علم ایسا ہے کہ وہ اچھے اور برے دونوں سے مخلوط ہے اُس کا مدار نیت پر ہے نیت اچھی ہوگی تو وہ ٹھیک ہوجائے گا نیت ٹھیک نہیں تو وہ بھی اچھا نہیں۔ یہ بڑا فرق آگیا اِس سے پتہ چل گیا کہ مدارس کاکیا درجہ ہے اور سکول کالج کا کیا درجہ ہے ؟ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ سکول کالجوں کے دروازوں پر آیت لکھ دیتے ہیں (رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا)یہ بہت بڑا گناہ ہے کیونکہ اِس آیت میں نبیوں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی ہے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھا دے۔ اَب سکول کالج کے اَندر ناچ گانا سکھایا جا رہا ہے ،میوزک کی تعلیم دی جارہی ہے ،لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ مل کر رقص کررہی ہی، گپیں مار رہی ہیں اور یہ اُن کو باقاعدہ فن کے طور پر پڑھا یا جاتا ہے، ہوٹلنگ ایک علم آگیا ،باقاعدہ وہ پڑھا پڑھایا جا رہا ہے کالجوں میں،اُس میں بتایا جارہا ہے کہ ہوٹل کیسے چلے گا کون سی عورت اُس میں پیش کی جائے گی، کیسے پیش کی جائے گی ،کیا طریقے ہیں ، شراب پیش کرنے کے کیا طریقے ہیں ،گائے کاگوشت پکانے کا کیا طریقہ ہے اور خنزیر کا گوشت پکانے کا کیا طریقہ ہے ، سب بتایا جا رہا ہے ،کہاں سے خنزیر حاصل ہوگا اور کہاں سے گائے حاصل ہوگی ، کس طرح خریدو فروخت کرنی ہے، کون سے خانساماں رکھنے ہیں کون سے نہیں رکھنے، کہاں پر عورت کو بٹھانا ہے کہاں مرد کو بٹھانا ہے ،یہ تمام چیزیں پڑھی پڑھائی جا رہی ہیں لیکن اُس کے باہر لکھاہوا ہے (رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا) تو یہ اللہ کے کلام کی توہین ہورہی ہے یا نہیں ہو رہی ، اللہ کے دین کا مذاق ہو رہا ہے یا نہیں ہورہا ؟ نہ وہاں باپ کا اَدب سکھایا جاتا ہے نہ وہاں ماں کا اَدب سکھایا جاتا ہے، نہ چھوٹے بڑے کی تمیز سکھائی جاتی ہے نہ رِشتہ داروں کے حقوق بتائے جاتے ہیں، بس کمانا اور پیسہ برائے پیسہ تو یہ ناپاکی ہی ناپاکی، اِس کو اگر پاک کر سکتی ہے تو نیت کرے گی۔ اگر یہی علم کسی اچھے آدمی نے حاصل کیا، اِسلام