ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
سو اُنہوں نے بہت زیادہ لکڑیاں جمع کیں اور اِنہیں شہر کے ایک وسیع و عریض میدان میں اَکھٹا کر کے آگ کا اَلاؤ دہکانا شروع کردیا اور پھر حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو پکڑا اور ایک بڑی رسی سے باندھ کر آگ کے درمیان ڈال دیا اُس وقت حضرت اِبراہیم علیہ السلام کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے : ( حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ) ''میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔'' اللہ تبارک وتعالیٰ تو یہ سب کچھ دیکھ ہی رہے تھے لہٰذا قبل اِس کے کہ آگ کی کوئی چنگاری آپ کو چھوتی، حکم ِ اِلٰہی آپہنچا : ( یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ ) (سُورة الا نبیاء : ٦٩ ) ''اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور آرام دہ اِبراہیم پر۔'' اِس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی حضرت اِبراہیم علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔ آگ حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو تو کوئی تکلیف نہ پہنچا سکی ہاں اُس نے اُس رسی کو جلا کر راکھ کردیا جس سے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو باندھا تھا۔ یوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو آگ سے نجات عطا فرمائی اور آپ آگ سے سلامتی اور عافیت کے ساتھ باہر آئے اور آگ کے اَلاؤ کو چیر کر اُس کے گرد موجود لوگوں کے جمِ غفیر کی طرف بڑھے جن کی زبانیں دہشت کے مارے گنگ ہو چکی تھیں ،اُن کی آنکھوں کے سامنے ہونے والے معجزے نے اُنہیں اِس قدر متاثر کیا کہ اُن کے بولنے اور حرکت کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوچکی تھی۔ بایں ہمہ وہ نہ تو حق تعالیٰ پر اِیمان لائے اور نہ بتوں کی تکفیر پر تیار ہوئے۔ ہاں آپ کی قوم کے معدودے چند لوگوں نے اِسلام قبول کیا جبکہ اَکثریت جہالت اور شرک میں ہی مبتلا رہی اور اِس اَکثریت میں سر فہرست'' نمرود'' تھا جو ملک ''باہل'' کا حکمران تھا جس نے اپنے ظلم واِستبداد اور لوگوں کی ایذا رسانی پر ہی اِکتفا نہ کیا اور نہ ہی خدائے وحدہ لاشریک کے شرک پر بس کی بلکہ اُس نے خدائی کا