ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
اور جب آپ نے دیکھا کہ نہ تو اِن بتوں کو قوتِ سماعت حاصل ہے کہ کسی کی بات سن سکیں اور نہ ہی عقل ہے کہ کسی بات کو سمجھ سکیں تو آپ نے قسم کھائی کہ میں اِن بتوں کو توڑ ڈالوں گا۔ آپ اِسی اِنتظار میں رہے حتی کہ اُن کی عید کا دِن آگیا جس میں وہ شہر سے باہر کھیتوں اور باغات میں میلے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اِدھر اِبراہیم علیہ السلام اُن کے معبد پہنچ گئے جس میں وہ بت اور مورتیاں موجود تھیں آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ آپ کی قوم نے اِن بتوں کے سامنے بے حساب کھانا چن رکھا تھا، آپ نے طنزًا فرمایا : ( اَلاَ تَأْکُلُوْنَ مَا لَکُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ) (سُورة الصفت : ٩١ ، ٩٢) '' تم کیوں نہیں کھاتے ، تم کو کیا ہے کہ نہیں بولتے ؟ '' پھر آپ نے اپنے ہاتھوں میں موجود کلہاڑا بلند کیا اور اُن بتوں کو توڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ تمام بتوں کو توڑ ڈالا سوائے بڑے بت کے آپ نے اُسے نہ توڑا بلکہ اُس پر کلہاڑا رکھ دیا کہ گویا اِس بت نے ہی بت کدے میں موجود تمام بتوں کو توڑا ہو۔ جب لوگ اپنے عید کے میلے سے واپس آئے اور بت خانے میں داخل ہوئے تو ٹوٹے ہوئے بتوں کو دیکھ کر دہشت زدہ رہ گئے اور ایک دُوسرے سے پوچھنے لگے : ( مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا ) (سُورة الا نبیاء : ٥٩ ) ''کس نے کیا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ ؟ '' بعض لوگوں نے کہا : ( سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُھُمْ یُقَالُ لَہ اِبْرَاہِیْمُ ) (سُورة الا انبیاء : ٦٠) ''ہم نے سنا ہے کہ ایک نوجوان بتوں کو کچھ کہتا ہے، اُس کو اِبراہیم کہتے ہیں۔'' اور اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اِبراہیم (علیہ السلام) اِن بتوں کا مذاق اُڑایا کرتے تھے اور اُنہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ اِنہیں توڑدیں گے۔ تمام لوگ آپ سے پوچھنے لگے ۔