ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2014 |
اكستان |
|
آزر نے اپنے بیٹے حضرت اِبراہیم علیہ السلام کی بات نہ مانی بلکہ آپ کو ڈرایا دھمکایا اور حکم دیا کہ آپ اِسے چھوڑدیں اور کہیں دُور نکل جائیں چنانچہ وہ کہنے لگے : ( اَرَاغِب اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یَآ اِبْرَاھِیْمُ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَارْجُمَنَّکَ وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا ) ١ ''کیا تو پھراہوا ہے میرے ٹھاکروں سے اے اِبراہیم ،اگر تو باز نہ آئے گا تو تجھ کو سنگسار کروں گا اور دُور ہوجا میرے پاس سے ایک مدت۔'' حضرت اِبراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کی دھمکی کو نہایت صبر و اِطمینان اور کشادہ دِلی سے قبول کرتے ہوئے فرمایا : (سَلٰم عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہ کَانَ بِیْ حَفِیًّا) ( سُورہ مریم : ٤٧) ''تیری سلامتی رہے، میں گناہ بخشواؤں گا تیرے اپنے رب سے، بے شک وہ ہے مجھ پر مہربان۔'' چنانچہ یہ کہہ کر آپ اپنے باپ کے شرک کرنے اور اللہ وحدہ لاشریک پر اِیمان نہ لانے پر اَفسوس کرتے ہوئے رُخصت ہوگئے۔ پھر ایک دِن حضرت اِبراہیم علیہ السلام نے چاہا کہ اپنی قوم کے سامنے اُن کا فاسد عقیدہ واضح کریں اور بت پرستی کی برائی بیان کریں چنانچہ آپ نے اُن سے پوچھا : (مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْ اَنْتُمْ لَھَا عَاکِفُوْنَ ) (سُورة الانبیاء : ٥٢) ''یہ کیسی مورتیں ہیں جن پر تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟ '' اُنہوں نے جواب دیاکہ ہمارے باپ دادا اِن کی عبادت کرتے تھے، سو ہم بھی اِن کی پرستش کرتے ہیں پھرآپ نے اِستہزاء ً اُن سے دریافت فرمایا : ( ھَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ اَوْ یَنْفَعُوْنَکُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ) ٢ ''کچھ سنتے ہیں تمہارا کہا جب تم پکار تے ہو یا کچھ بھلا کرتے ہیں تمہارا یا برا ؟ '' ١ سُورہ مریم : ٤٦ ٢ سُورة الشعراء : ٧٢ ، ٧٣