ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
گواہ بنالو تاکہ معاملہ صاف رہے یہ اَلگ بات ہے لیکن اَگر کوئی زبان سے وعدہ کرلیتا ہے تو اُس کے بارے میں فتوی کیا ہے اَور لکھ کر وعدہ کرتا ہے اُس کے بارے میں فتوی کیا ہے تو فتوی ایک ہی ہے کہ وعدہ وعدہ ہی ہے اَب چاہے لکھ کر کرے چاہے ویسے کرے۔ تو مسلمان جو تھے وہ ایسے تھے کہ زبان کے پکے بات جو کرلی وہ پکی اَور اَب یہ ہے کہ کسی بات کا اِعتبار نہیں،تجارت کے اُصول کے بالکل خلاف کرتے ہیں۔ ''سچا وعدہ ''تجارت کی ضرورت ہے چاہے مسلمان ہو یاکافر : اِسلام نے تجارت میں دیانتداری بتائی ہے اَور دیانتداری جو ہے یہ تجارت کی ضروریات میں سے ہے اَگر دیانتداری بر توگے تو تجارت کو فروغ ہوگا، نہیں برتوگے نہیں فروغ ہوگا ایک اُصول ہے کھلا ہوا اِسے غیر مسلم اَقوام نے اَپنا رکھا ہے اَور مسلمان اِتنے گر گئے اَخلاقی طور پر کہ تجارت میں بھی گڑبڑ کرنے لگے ،یہاں سے جو چیز باہر سپلائی ہوتی ہے نمونہ کچھ دِکھا یا جاتا ہے بھیجتے کچھ ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں کی چیزوں کو پسند نہیں کیا جاتا ۔اَچھا پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ،ہمارا ملک مسلمان ہے، مسلمانوں کو مسلمانوں سے تعلق رکھنا چاہیے اَرے بھائی یہ دھوکے بازی کہ رُوئی میں تم اِینٹیں بھر دو اَور کسی چیز میں کوئی اَور چیز مِلادو تو یہ کون سا اِسلام ہے یہ کب اِسلام نے بتلایا ۔تو غیر مسلموں کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ یہ تجارتی اُصول ہے جیسے کہ سمگلر ہیں بات کے بڑے پکے بڑے سچے، اِشاروں میں اُن کی باتیں ہوتی ہیں اَور بالکل فرق اُس میں نہیں آنے دیتے باہر ملکوں میں اَدائیگی ہوگی اَور لین دین ہوگا یہ ہوگا وہ ہوگا بالکل ٹھیک ٹھیک ،یہ کیوں ہے ؟ اِس واسطے کہ یہ سچائی اُن کی تجارتی ضرورت ہے۔ تو تجارت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اُن میں ایک تقاضا یہ ہے تجارت کا کہ جو کہے وہ ٹھیک کہے، جو بات ہو رہی ہو وہ صاف ستھری ہو ،جو نمونہ دکھایا جائے مال وہی دیا جائے۔ تجارت میں نفع کی حد : نفع اَندوزی نفع کا لالچ اِتنا بڑھ گیا ہے کہ کوئی حساب نہیں اِسلام نے تو بتایا( کہ زیادہ سے