ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
حقیقت ماتم کی یہاں بھی موجود ہے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ اَور اِرشاد فرمایا حق تعالیٰ نے پس جس شخص نے ذرّہ کے برابر نیکی کی وہ اُس کو دیکھ لے گا اَور جس نے ذرّہ کے برابربُرائی کی وہ اُس کو دیکھ لے گا۔ چونکہ حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے ''اِصلاح الرسوم'' میں منکراتِ مروجہ کی نہایت عمدہ طریق پر تفصیل کے ساتھ اِصلاح فرمائی ہے، اِس واسطے اِصلاح الرسوم باب سوم کی فصل سوم سے عشرۂ محرم کی رسوم ِقبیحہ کا بیان لکھا جاتا ہے۔ یہ رسوم دو قسم کی ہیں : ایک وہ جو فی نفسہ حرام ہیں، دُوسری وہ جو فی نفسہ مباح تھیں مگر فسادِ عقیدہ کے سبب حرام ہوگئیں، دونوں کو جدا جدا بیان کیا جاتا ہے۔ قسم اَوّل کے منکرات : (١) تعزیہ بنانا : اِس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق و شرک صادِر ہوتا ہے۔ بعض جہلاء کا اِعتقاد ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اِس میں حضرت اِمام حسین رونق اَفروز ہیں اَور اِس وجہ سے اُس کے آگے نذر و نیاز رکھتے ہیں جس کا مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے۔ اُس کے آگے دَست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں، اُس کی طرف پشت نہیں کرتے، اُس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، اُس کے دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں اَور اِس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں۔ اِن معاملات کے اِعتبار سے تعزیہ اِس آیت کے مضمون میں داخل ہے اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ یعنی کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو۔ اَور طرف ماجرا یہ ہے کہ یا تو اُس کی بے حد تعظیم و تکریم ہو رہی تھی اَور یا دفعةً اُس کو جنگل میں لے جاکر توڑ پھوڑ برابر کیا۔ معلوم نہیں آج وہ ایسا بے قدر کیوں ہوگیا، واقعی جو اَمر خلافِ شرع ہوتا ہے وہ عقل کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ بعضے نادان یوں کہتے ہیں کہ صاحب اِس کو حضرت اِمام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے ساتھ نسبت ہوگئی اَور اُن کا نام لگ گیا اِس لیے تعظیم کے قابل ہوگیا۔ جواب اِس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں