ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
اِس لیے جس وقت رُوح کا جسم پر غلبہ ہوجاتا ہے تو اُس کے لیے قریب و بعید یکساں ہوجاتے ہیں وہ اِنسان تھوڑے وقت میں زیادہ کام کر سکتا ہے گویا اُس کے لیے زمانہ پر بھی تصرف ممکن ہوجاتا ہے (کیونکہ رُوح عالمِ اَمر کی چیز ہے اَور عالمِ اَمر خود زمان و مکان سے بالاہے)۔ سفرِ معراج،وقت و مسافت : بس معراج میں یہی ہوا کہ جسمِ اَطہر پر بہ اِرادہ ٔباری تعالیٰ رُوحِ مقدسہ کا تصرف رہا اَور جب ایسی صورت ہوتی ہے تو جسم کو کوئی چیز نہ نقصان پہنچا سکتی ہے نہ اُس کے کام میں رُکاوٹ ڈال سکتی ہے وہ جسم کی محافظ بن جاتی ہے جیسے کوئی ہوائی جہاز میں اَندر بیٹھا ہو تو ہوائی جہاز کا جسم باہر کی پوری فضا کے لیے روک کا کام دیتا ہے اَور باہر کے حصہ میں اَندر کے حصہ سے کوئی نسبت نہیں ہوتی، باہر اَگر کوئی چیز ڈالی جائے گی تو وہ کہیں کی کہیں جائے گی جیسے ریل کی کھڑکی کے باہر پانی ڈالتے ہیں تو کہیں کا کہیں جاتا ہے مگر اَندر اَگر ہاتھ سے گلاس چھوٹے گا تو نیچے ہی کو گرے گا اگر اَندر کا حصہ بھی ہوائی جہاز کے باہر کا حکم رکھتا تو گلاس ہاتھ سے چھوٹتے ہی جسم پر گولی کی طرح لگتا اَور پار ہوجاتا مگر اَندر کا وہ حکم نہیں جو باہر کا ہوتا ہے۔ اِسی طرح جسمِ اِنسانی پر اَگر کسی وقت رُوح کا غلبہ ہوجاتا ہے تووہ سارے کام جسم سے بھی ممکن ہوتے ہیں جو رُوح کر سکتی ہو اَور جسم رُوح کا مظروف بن جاتا ہے اَور رُوح محیط ہوجاتی ہے اُس کا ظرف بن جاتی ہے اِس لیے معراج میںرسولِ اَکرم ۖ کے لیے کوئی فاصلہ فاصلہ نہیں رہا اَور جسمِ مبارک (خیال کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ رفتار سے) رُوح کی قوت سے سفر طے کر آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زِندہ اُٹھایا جانا : اِس طرح سمجھ لیجیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام کو بھی رُوحانی قوت سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے۔ ( مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ) ١ ''اَور یقینًا اُن کو قتل نہیں کیا بلکہ اُن کو اللہ نے اَپنی طرف اُٹھا لیا۔ '' ١ پارہ ٦ رکوع ٢