ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
بدنگاہی کا مرض بہت چھپا ہوا ہوتا ہے : اَفسوس ہے کہ لوگ تو اِس (بدنگاہی) کو اَیسا خفیف سمجھتے ہیں کہ گویا حلال ہی ہے حالانکہ معصیت کا حلال سمجھنا قریب بہ کفر ہے۔ کسی عورت کو دیکھ لیا کسی لڑکے کو گھور لیا اِس کو ایسا سمجھتے ہیں جیسے کسی اچھے مکان کو دیکھ لیا یا کسی پھول کو دیکھا لیا ۔اَور یہ گناہ وہ ہے کہ اِس سے بوڑھے بھی بچے ہوئے نہیں ہیں ،بدکاری سے تو محفوظ ہیں کیونکہ اِس کے لیے بڑے اہتمام کرنے پڑتے ہیں تو اَوّل تو جس سے ایسا فعل کرے وہ بھی راضی ہو اَور روپیہ بھی پاس ہو اَور حیا و شرم بھی مانع نہ ہو۔ غرض اِس کے لیے بہت شرائط ہیں۔ اِسی طرح بہت سے موانع بھی ہیں چنانچہ کہیں یہ اَمر مانع ہوتا ہے کہ اَگر کسی کو اِطلاع ہو گئی تو کیا ہوگا، کسی کو خیال ہوتا ہے کہ کوئی بیماری نہ لگ جائے، کسی کے پاس روپیہ نہیں ہوتا ،کسی کو اُس کی وضع مانع ہے چونکہ موانع زیادہ ہیں اِس لیے شائستہ آدمی خصوصًا جو دیندار سمجھے جاتے ہیں اِس میں بہت کم مبتلاہوتے ہیں بخلاف آنکھوں کے گناہ کے کہ اِس میں سامان کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ نہ اِس میں ضرورت روپیہ کی اَور نہ اِس میں بدنامی کیونکہ اِس کی خبر تواللہ ہی کو ہے کہ کیسی نیت ہے۔ کسی کو گھور لیا اَور مولوی صاحب مولوی صاحب رہتے ہیں، نہ اِس فعل سے اُن کی مولیت میں فرق آتا ہے اَور نہ قاری صاحب کے قاری ہونے میں کوئی دھبہ لگتا ہے اَور (دُوسرے) گناہوں کی خبر تو اَوروں کو بھی ہوجاتی ہے مگر اِس کی اِطلاع کسی کو نہیں ہوتی۔ معصیت کرتے ہیںاَور نیک نام رہتے ہیں لڑکوں کو گھورتے ہیں اَور لوگ سمجھتے ہیں کہ اِن کو بچوں سے بڑی محبت ہے، جب آنکھوں کے گناہوں میں اِطلاع نہیں ہوتی تو دِل کے گناہ پر کیسے ہو سکتی ہے۔ اَور جن کو اِطلاع ہوتی بھی ہے وہ حضرات ایسے متحمل ہوتے ہیں کہ کسی کو خبر نہیں کرتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص آیا اَور وہ کسی کو بری نگاہ سے دیکھ کر آیا تھا تو حضرت عثمان نے خطاب ِ خاص سے تو اِس سے کچھ نہ فرمایا لیکن یہ فرمایا مَابَالُ قَوْمٍ یَتَرَشَّحُ الزِّنَا مِنْ اَعْیُنِھِمْ یعنی لوگوں کا کیا حال ہے کہ اُن کی آنکھوں سے زِنا ٹپکتا ہے۔ یہ عنوان ایسا ہے کہ اِس میں رُسوائی کچھ