ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
لوگ بچتے ہیں جن کے اِرتکاب میں فوتِ جاہ یا رُسوائی کا خیال ہو اَور اِس گناہ میں جاہ و (عزت) فوت نہیں ہوتی اِس لیے کہ اَوّل تو دُوسرے کو نظر کی خبر ہی کیونکر ہو سکتی ہے، دُوسرے اَگر نظر کی اِطلاع بھی ہوجائے تو نیت کی کیا خبر۔ بعض لوگ اِس سے بھی بچتے ہیں لیکن اُن کے قلب میں یہ مرض شہوت کا ہوتا ہے اَور لطف یہ کہ باوجود اِس قلبی مرض کے یہ شخص اَپنے کو متقی سمجھتا ہے حالانکہ خیالات اِس کے نہایت گندے ہوتے ہیں اَور اَکثر وہ حدیث ِنفس (نفس سے باتیں کر کے مزہ لینے) میں مبتلا ہوتا ہے بعض اَوقات عزم بھی ہوجاتا ہے، اَگر اِس کو موقع مل جائے تو یہ ہر گز نہ بچے۔ جب اِس کی عادت ہوجاتی ہے تو اِس کا چھوٹنا نہایت دُشوار ہوجاتاہے۔ (دعواتِ عبدیت ) بدنگاہی سے بہت کم لوگ بچے ہیں : ہم کو اَپنی حالت دیکھنی چاہیے کہ ہمارے اَندر اِس معصیت سے بچنے کا کتنا اِہتمام ہے۔ میں دیکھتا ہوں شاید ہزار میں ایک اِس سے بچا ہوا ہو ورنہ اِبتلائے عام ہے اَور اِس کو نہایت دَرجہ خفیف سمجھتے ہیں، جو جوان ہیں اُن کو تو اِس کا اِحساس ہوتا ہے اَور جن کی قوتِ شہویہ ضعیف ہوگئی ہے اُن کو اِحساس بھی نہیں ہوتا، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو تو شہوت ہی نہیںاِس لیے کچھ حرج نہیں ہے۔ سو اُن کو مرض کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ (مظاہر الاقوال ص ٣٤) یہ مرض تاک جھانک کا اَکثر پرہیزگاروں میں بھی ہے اُن کو دھوکا اِس سے ہوجاتا ہے کہ وہ بعض اَوقات اَپنی طبائع میں اَکثر شہوت کی خلش نہیں پاتے ،اِس سے سمجھتے ہیں کہ ہماری نظر شہوانی نہیں لیکن بہت جلد ظاہر ہوجاتی ہے اِس لیے اِبتداء ہی سے اِحتیاط واجب ہے۔ (دعواتِ عبدیت ) ایک کوتاہی طلبہ میں یہ ہے کہ اَمارد (حسین لڑکوں) کی طرف نظر کرنے اَور اُن کے ساتھ اِختلاط کرنے سے نہیں بچتے حالانکہ یہ تقوی کے لیے سمِ قاتل ہے آخرت کا مواخذہ تو شدید ہے ہی ، اِس سے دُنیا میں اہلِ علم کی سخت بدنامی ہوتی ہے۔ علم دین پڑھنے والوں کو اِس باب میں سخت اِحتیاط کرنا چاہیے۔ (التبلیغ ٢٧/ ١٣٦)