ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
''فَلَکْ''کی تشریح : یہاں یہ بات واضح کرنی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ قرآنِ پاک میں'' فلک'' کا لفظ بہت جگہ اِستعمال ہوا ہے وہ'' سمائ'' کے معنی میں نہیں ہے۔ قرآنِ حکیم میں ایک جگہ چاند وسورج کی چال کے متعلق اِرشاد ہے : ( کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْن ) (پ ١٧ رکوع ٣) اِس کا ترجمہ حضرت اَقدس مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے یہ کیا ہے کہ ''ہر ایک، ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں'' اُنہوں نے فلک بمعنی'' دائرہ'' لیا ہے نہ کہ'' آسمان'' (اَور یہ جملہ سُورۂ یٰس شریف میں بھی ہے)۔ حضرت تھانوی قدس سرہ نے جو کچھ فرمایا ہے اُس کی صحت کے لیے میں اَسلاف کے حوالے نقل کرتا ہوں ۔دیکھیے بخاری شریف میں ہے : وقال الحسن : فِیْ فَلَکٍ مِثْلِ فَلْکَةِ الْمِغْزَلِ یَسْبَحُوْنَ یَدُوْرُوْنَ ١ یعنی کاتنے کے تکلے کی طرح یا اَپنے مدار پر اَور یَسْبَحُوْنَ کا مطلب ہے کہ گھومتے ہیں ۔ حاشیہ میں ہے کہ حسن سے مراد حسنِ بصری ہیں وہ سترہویں پارہ کی آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں ۔اَور اِبن ِعیینہ نے اِسے بسندِ موصول نقل کیا ہے اُنہوں نے کہا ہے کہ'' فَلَکْ'' مدار ِنجوم کو کہتے ہیں اَور فلک عربی زبان میں ہر گول چیز کو کہتے ہیں اَور اِسی سے لے کر کاتنے کے تکلے کو کہنے لگے۔ چاند کی چال کے بارے میں سُورۂ یٰس میں اِرشاد ہے : ( وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرِّ لَّھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ) ٢ ''اَور آفتاب اَپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اَندازہ باندھا ہوا ہے اُس کا جو زبردست علم والا ہے۔'' اَور سورۂ ''رحمن'' میں اِرشاد ہے : ١ بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث ٤٧٣٩ ٢ پارہ ٢٣ رکوع ٢