ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
و ضوابط کو اُن مقاصد سمیت جو یہ لوگ بتاتے ہیں اہلِ سنت کے اُصول و ضوابط مانتے ہیں ؟ عمار خان کے بتائے ہوئے اِن ضابطوں پر ہم آگے تفصیل سے کلام کریں گے۔ ہم اُن اہلِ علم حضرات سے کیا یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ تاویلوں کے چکر میں پڑنے کے بجائے حق کو حق کہیں اَور باطل کو باطل کہیں۔ تاویل اُن لوگوں کے کلام میں کی جاتی ہے جو اہلِ سنت ہوں، اہلِ حق ہوں اَور تسلیم شدہ اہلِ علم ہوں۔ جبکہ عمار خان سے بحالاتِ موجودہ جس طرح کی ہمدردی کی جا رہی ہے اَور جس طرح اُن کا دفاع کیا جا رہا ہے وہ اِس حدیث کا مصداق ہے مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ ۔ علاوہ اَزیں یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے علاقوں میں فقہ حنفی کا رواج ہے اَور اُسی کے اُصول و فروع پڑھنے پڑھانے کا معمول ہے۔ لہٰذا علماء کے ذہنوں میں بھی حنفی اُصول ہی نقش ہوتے ہیں اَور یہ کوئی نقص نہیں ہے۔ جو حضرات زیادہ فقہی ذوق رکھتے ہیں وہ دیگر فقہوں کا بھی علم حاصل کر لیتے ہیں۔ اِس لیے اَگر عمار خان پر کوئی فقہ حنفی کے اُصول و فروع کی رُو سے اِعتراض کرے تو اُس کی روِش غلط نہیں درست ہے اَور عمار خان کو کچھ حق نہیں کہ وہ اُن پر کسی بھی قسم کا اِعتراض کریں یا پھبتیاں کسیں۔ عمار خان کے پھبتیاں کسنے کی اَور بلا وجہ کا اِعتراض کرنے کی ایک مثال یہ ہے،وہ لکھتے ہیں : '' دینی مدارس کے طلبہ و اَساتذہ کے متعلق عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ وہ جدید علوم سے واقفیت حاصل نہیں کرتے اَور نتیجتاً دَورِ جدید کے ذہنی مزاج اَور عصری تقاضوں کے اِدراک سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن میرے نزدیک اِس طبقے کا زیادہ بڑا اَلمیہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی علمی روایت، وسیع علمی ذخیرے اَور اپنے اَسلاف کی آراء و اَفکار اَور متنوع تحقیقی رُجحان سے نابلد ہے۔ اِس علمی تنگ دَامنی کے نتیجے میں اِس طبقے میں جو ذہنی روّیہ پیدا ہوتا ہے وہ بڑا دلچسپ اَور عجیب ہے۔