ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
یہ حضرات اپنے محدود علمی ماحول میں جو باتیں سنتے اَور مطالعے کے لیے اپنے اَساتذہ کی طرف سے بڑی اِحتیاط سے منتخب کردہ کتب میں جو چیزیں پڑھتے ہیں اُس کے علاوہ اِنہیں ہر چیز گمراہی اَور بے راہ روِی محسوس ہوتی ہے اَور یہ غیر شعوری طور پر نہیں ہوتا بلکہ اِس کی باقاعدہ ذہن سازی کی جاتی ہے۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے کہ کوئی علمی بات یا نکتہ اِس ماحول کے تربیت یافتہ حضرات کے سامنے پیش کیا جائے تو پہلے کہیں پڑھا یا سنا نہ ہونے کی وجہ سے اُن کا فوری تأثر یہ ہوتا ہے کہ یہ تو اَکابر سے ہٹ کر دین میں ایک '' نئی بات'' کہی جا رہی ہے اَور اگر معاملہ ذرا حساسیت کا حامل ہو تو فورًا اُس پر گمراہی اَور ضلالت کے فتوے بھی لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ١ اِس اِمکان کی طرف اُن کا ذہن متوجہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسی کسی بات پر کوئی ردّ عمل ظاہر کرنے سے پہلے ماضی کے علمی ذخیرے کی مراجعت کرتے ہوئے اِس بات کی تحقیق کر لی جائے کہ ہم نے جو بات اَب تک پڑھ یا سن رکھی ہے اُس سے مختلف بھی کوئی رائے اُس ذخیرے سے ملتی ہے یا نہیں ؟ یوں یہ حضرات اپنے اِرد گرد کے چند گنے چنے اَکابر سے سنی ہوئی باتوں کو ہی علم کی کائنات سمجھتے اَور کوئی بھی نئی بات سامنے آنے پر اَپنے اَپنے حوصلے اَور وسعت ِذہن کے مطابق اُس پر گمراہی، تحریف اَور تاویل ِباطل وغیرہ کے فتوے جڑنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔'' ( ماہنامہ اَلشریعہ جون 2013 ص: 27 ) ١ یہ عمار خان کا بارہا کا اَپنا تجربہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عمار خان نے اِن حضرات کے سامنے ایسی باتیں رکھی تھیں۔ عمار خان کو اَیسا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اَور اُن کا مقصد کیا تھا ؟ عمار خان نے اَپنے آپ کو اَور اپنی وسعت علمی کو سند (Authority) کیسے سمجھ لیا ؟ (عبدالواحد غفرلہ)