ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
ہم کہتے ہیں کہ لیجئے سب حجتوں سے جان بخشی ہوئی اَور اَب عمار خان ہیں اَور نصوص ہیں، وہ اُن کی جیسے چاہے جوڑ توڑ کریںاَور جو چاہیں اُن کی شکل بنائیں۔ پہلوں کی تو آراء تھیں اِس لیے معیار نہیں تھیں اِس دعوے کے مفہومِ مخالف سے یہ نکلا کہ عمار خان اَور جاوید غامدی جو کچھ کہیں گے وہ رائے نہیں ہو گی وحی کے دَرجے کی چیز ہو گی۔ 7۔ ''عمار خان حدیث کو علی الاطلاق ضعیف کہہ کر اُس کی اہمیت کو گھٹاتے ہیں مثلاً وہ حدیث جس میں عورت کی دیت کو مرد کی دیت کا نصف قرار دیا ہے۔'' عمار خان اُس کو ضعیف کہتے ہیں حالانکہ بعض قرائن و حالات میں ضعیف حدیث واجب العمل ہوتی ہے اَور عورت کی نصف دیت والی حدیث کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ 8۔ ''غیر صحابی پر صحابی کی تقلید واجب نہیں ہے۔'' ہم کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ مجتہدین کے نزدیک اِختلافی ہے یہاں تک کہ خود حنفیہ کے ہاں بھی۔ پھر اِس مسئلہ کے ایک پہلو کے اِظہار سے عمار خان کا کیا مقصد ہے ؟ تنبیہ1 : عہد ِرسالت کے بھلے مانس لوگوں پر بہتان لگانا جائز ہے۔ عمار خان لکھتے ہیں : '' ممکن ہے مولانا محترم (عبدالواحد) کا یہ مفروضہ منافقین کے بارے میں درست ہو لیکن جہاں تک مخلص اَور خدا ترس اہلِ اِیمان کا تعلق ہے تو مستند روایات کی رُو سے وہ ایسا کرنے کی (یعنی زِنا کے اَڈے چلانے کی، مستقل یاری آشنائی کرنے کی اَور زِنا بالجبر کرنے کی) پوری پوری جرأت رکھتے تھے۔'' تنبیہ 2 : یہ مذکورہ چند ضابطے بطور ِنمونہ اُن ضابطوں میں سے ہیںجو عمار خان ناصرنے اپنی کتاب '' حدود و تعزیرات'' میں ذکر کیے ہیں اَور جن کو وہ تلبیس سے کام لیتے ہوئے اہلِ سنت کے ضابطے قرار دیتے ہیں۔ جن اہلِ علم حضرات کو جاوید غامدی اَور عمار خان جیسوں سے ہمدردی ہے کیا وہ اِن اُصول