ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2013 |
اكستان |
|
اِس کو بیان کریں گے۔ 4۔ ''یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ صحابہ و تابعین نے کون سی متعین رائے کس اِستدلال کی بنیاد پر اِختیار کی تھی۔'' ہم کہتے ہیں کہ تابعین صحابہ کے باقاعدہ شاگرد تھے اَور اُن کے بعد بھی تعلیم و تعلم کا نظام تسلسل سے چلااَور تابعین ہوں یا تبع تابعین اُن کے بڑے حضرات مجتہد بنے۔یہ بات اِستدلال کو سیکھے بغیر محض تقلید سے حاصل نہیں ہوتی اَور عام طور سے متبحرین یا مجتہدین فی المذہب اپنے اَساتذہ کے دلائل سے اُن کا اِستدلال سمجھ لینے کی لیاقت رکھتے تھے۔ لیکن عمار صاحب اَب نئے سرے سے نصوص پر غور کریں گے، اپنے اِستدلال کو بنیاد بنائیں گے اَور جو حکم سامنے آئے گا اُس کو لیں گے اَور اَگر اِجماع اُس کے مزاحم ہو گا تو اُس کو بھی نظر اَنداز کر دیں گے۔ 5۔ ''صحابہ و تابعین کی آراء اَور اُن کے فتاویٰ کا ایک مخصوص عملی پس منظر تھا یعنی اُس وقت مخصوص سماجی اَور معاشی حالات پیش نظر تھے جن سے علیحدہ کر کے اُن اَحکام کو صحیح طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ اَور چونکہ وہ مخصوص عملی پس منظر بدل چکا ہے لہٰذا جو حکم پہلے دَور میں سمجھا جاتا تھا وہ اَب اِس طرح سے سمجھا نہیں جا سکتا، اِس لیے ہمیں اپنے نئے پس منظر میں اَحکام کو معلوم کرنا ہو گا۔'' ہم کہتے ہیں کہ یہ بات بھی منکرین حدیث والی ہے۔ 6۔ ''فقہ و تفسیر کا جو ذخیرہ دَورِ اَوّل کا ملتا ہے وہ کسی طرح بھی قرآن و سنت کے کل علمی اِمکانات کا اِحاطہ نہیں کرتا اِس لیے اپنے آپ کو اُن فقہی و تفسیری آراء کا نہ تو پابند کرنا درست ہے اَور نہ اُن کو قانون سازی کا مأخذ بنانا درست ہے بلکہ حالات کی تبدیلی میں قانون سازی کا اَصل مأخذ نصوص ہی قرار پاتے ہیں۔ غرض ائمہ فقہاء کی آراء معیار نہیں بلکہ جو اُمور معیار ہیں وہ یہ تین چیزیں ہیں : (i) مزاج (ii) شرعی نصوص اَور (iii) نئے حالات کے تحت نئے اَحکام۔''