ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
سوال : زکٰوة سے اَورکس قسم کی کیا کیا چیزیں مستثنیٰ ہیں ؟ جواب : جائیداد کے علاوہ مشینری کے اَوزار ، فرنیچر ، برتن ، کپڑے خواہ وہ کسی تعداد میں ہوں زکٰوة سے مستثنیٰ ہیں ۔ سوال : زکٰوة کس کس کودی جاسکتی ہے ؟ جواب : یہ سوال بڑا مفید ہے، اِس کاجواب سمجھ کریاد رکھنا چاہیے کہ زکٰوة اُس کو دی جائے گی (جونصابِ زکٰوةکا مالک نہ ہو ، اَور)جس کے پاس اِستعمالی ضرورت سے زیادہ سامان بھی نہ ہو۔لہٰذا اگر کسی کے پاس گھر میں قیمتی فالتو سامان پڑاہو مثلاًتانبے کے برتن اَورقالین وغیرہ جو وہ اِستعمال میں نہیں لاتا (یاریڈیو ، ٹیپ ریکارڈر، ٹیلیویژن اَورزائد اَز ضرورت فرنیچروغیرہ )تو اُس سامان کی قیمت کا اَندازہ کیا جائے گا،اگر اُس سامان کی قیمت بقدرِ نصاب بن جاتی ہے یعنی ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر تو یہ شخص زکٰوة لینے کا مستحق نہیں ہوگا۔اگر اپنے آپ کو غریب کہہ کر زکٰوة لے گا توسخت گنہگار ہوگا ۔ایسا شخص نہ زکٰوة لے سکتا ہے نہ صدقہ فطر، بلکہ ایسے آدمی پرتوخود صدقہ فطردینا واجب ہوتا ہے اَورقربانی بھی۔ اَوریہ بھی سمجھ لیجیے کہ زکٰوة اپنی اُصول یعنی ماں باپ یا اُن کے ماں باپ ، دادا، دادی ، نانا، نانی کو نہیں دی جاسکتی ۔ایسے ہی فروع یعنی بیٹا ،بیٹی، پوتا، پوتی ،نواسہ ،نواسی کوبھی نہیں دی جاسکتی ۔شوہر بیوی کو اَور بیوی شوہر کو نہیں دے سکتی ۔ سیّدوں کو وہ حسنی ہوں یاحسینی اَورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دُوسری اَولاد کو جنہیں علوی کہتے ہیں حضرت عقیل ،حضرت جعفرطیّارکی اَولاد کو بھی جو جعفری کہلاتے ہیں اَورحضرت عبّاس بن عبدالمطلب کی اَولاد کوبھی جو عبّاسی کہلاتے ہیں اَوراگر کوئی حضرت حارث بن عبدالمطلب کی اَولاد میں ہوں تو اُنہیں بھی ، غرض اِن سب خاندانوں کو زکٰوة دینی اَوراِنہیں لینی منع ہے ۔ سوال : مدارسِ اِسلامیہ میں زکٰوة کا مال دینا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب : ہاں طالب علموں کو زکٰوة کامال دینا جائز ہے اَور مدارس کے مہتمموں کو اِس کے لیے