ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
قسط : ٢٣پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ) پردہ کس عمر سے ہونا مناسب ہے ؟ ڈھاکہ کے نواب صاحب نے حضرت والا سے دریافت کیا کہ پردہ کس عمر سے ہونا چاہیے ؟ فرمایا غیروں سے تو سات برس سے بھی کم اَور نامحرم رشتہ داروں سے سات برس کی عمر سے۔ بسا اَوقات سیانی (لڑکی) کے سامنے آنے سے اِتنے فتنے نہیں ہوتے جتنے ناسمجھ کے سامنے آنے سے ہوتے ہیں کیونکہ سیانی خود حیا کرتی ہے اَور مردوں کو موقع کم دیتی ہے نیز مرد سمجھتا ہے کہ یہ سیانی سمجھ دار ہے اِس کے سامنے دِلی خیالات عملاً ظاہر کروں گا تو سمجھ جائے گی اَور ناسمجھ کے سامنے یہ مانع موجود نہیں ہوتا بلکہ میری رائے یہ ہے کہ جب تک لڑکی پردہ میں نہ بیٹھ جائے ایک چھلہ بھی نہ پہنا یا جائے اَور کپڑے بھی سفید یا معمولی چھینٹ وغیرہ سے پہنائے جائیں اِس میں دین کی بھی مصلحتیں ہیں اَور دُنیا کی بھی۔ (ملفوظات ِ اَشرفیہ ص ١٧٣، ١٧٤) بیاہی لڑکی کی بھی حفاظت بہت ضروری ہے : لوگوں کو عام خیال یہ ہے کہ کنواری کی حفاظت زیادہ ضروری ہے بیاہی ہوئی کی نگہبانی کی ضرورت نہیں اَور یہ خیال ہندوؤں سے ماخوذ ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اگر کنواری سے کوئی بات ہو جاتی ہے تو اُس میں بدنامی اَور رُسوائی ہوتی ہے اَور بیاہی سے کوئی بات سر زد ہوجائے تو بدنامی نہیں ہوتی کیونکہ اُس کے توشوہر ہے اُس کی طرف نسبت کی جائے گی مگر یہ خیال محض جہالت پر مبنی ہے اگر عقل سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کنواری کی حفاظت کی اِتنی ضرورت نہیں جتنی بیاہی ہوئی کے لیے ضروری ہے۔