ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
ہماری عورتیں پردہ میں رہتی ہیں ۔ہاں اِتنا فرق ہے کہ تمہاری عورتیں گھر میں بیٹھ کر سجی سجائی نامحرموں کے سامنے آتی ہیں اَور غریبوں کی عورتیں میلی کچیلی اپنی ضروریات کے لیے شرم و حیاکے ساتھ باہر پھرتی ہیں پس یہ بے پردگی نہیں ،بے پردگی تو ایف اے ،بی اے اَور ایم اے والی عورتوں میں ہے کہ کھلے منہ مردوں کی طرح آزادی کے ساتھ بوٹ سوٹ کے ساتھ آراستہ پھرتی ہیں۔ (مفاسد گناہ ص ٤١٠) آنکھوں کے زِنا کرنے اَور بدنگاہی کی حقیقت : ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ جو حدیث میںہے اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ یعنی دونوں آنکھیں زِنا کرتی ہیں تو کیا آنکھیں بھی زِنا کرتی ہیں ؟ اِس پر حضرت نے فرمایا اِس میں شک کیا ہے ؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ آگے حدیث میں ہے : وَالْفَرَجُ یُصَدِّقُ اَوْ یُکَذِّبُہ (اَورشرم گاہ اُس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب)اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دیکھنے پر زِنا واقع ہوجائے تو آنکھوں کا بھی زِنا ہوگا اَور زِنا واقع نہ ہوتو پھر آنکھوں کا بھی زِنا نہ ہوگا لہٰذا صرف دیکھ لینا زِنا نہیں ورنہ وَالْفَرَجُ یُصَدِّق کے کیا معنی ہوں گے ؟ حضرت نے فرمایا کہ لوگ عمومًااِسی کو تفسیر سمجھتے ہیں مگر اِس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ مطلق دیکھنا زِنا نہ ہواحالانکہ دیکھنا بھی آنکھوں کا زنا ہے خواہ فعلی (یعنی عملی طور پر) زِنا واقع نہ ہو۔ اِس حدیث کی اَچھی تفسیر وہ ہے جو مولانا محمد یعقوب صاحب سے منقول ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ کہ ہر نظر (یعنی ہر دیکھنا) زِنا نہیں بلکہ جو نظر فرج کے علاقہ ( شرمگاہ کے تعلق سے ہو) یعنی جس نظر کے باعث شہوت ہو ( شہوت کے ساتھ دیکھناہو) وہ زِنا ہے ورنہ یوں تو ماں بہن پر بھی نظر کرتے ہیں مگر وہ چونکہ شہوت سے نہیں ہوتی اِس لیے زِنا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آنکھوں کے زِنا کا تحقق اُس وقت ہوگا جبکہ فرج (شرمگاہ) اِس کی تصدیق کرے اَور اگر فرج اِس کی تصدیق نہ کرے تو آنکھوں کے زِنا کا تحقق نہ ہوگا یہاں پر فرج کے معنی شہوت کے ہیں۔ اِس تفسیر پر کوئی اِعتراض نہیں پڑتا پس ہر وہ نظر زِنا ہوگی جس کا باعث شہوت ہو اَب اگر کسی