ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2013 |
اكستان |
|
اَور اِس میں راز یہ ہے کہ قدرتی طور پر کنواری میں شرم و حجاب بہت ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ ایک طبعی مانع موجود ہے اَور بیاہی ہوئی کی طبیعت کھل جاتی ہے اُس کے ساتھ طبعی مانع موجود نہیں ہوتا اِس لیے اِس کی عفت و عصمت محفوظ رکھنے کے لیے بہت بڑی نگہبانی کی ضرورت ہے نیز کنواری کو طبعی مانع کے علاوہ رُسوائی کا بھی خوف زیادہ ہوتا ہے اَور بیاہی کو اِتنا خوف نہیں ہوتا کیونکہ کنواری میں تو کوئی آڑنہیں اَور اِس میں شوہر کی آڑ ہے اِس کا فعل اُس کی طرف منسوب ہو سکتا ہے اِس لیے بیاہی ہوئی کی طبیعت بُرے کاموں پر کنواری سے زیادہ مائل ہوسکتی ہے اِس لیے اِس کی حفاظت کنواری سے زیادہ ہونی چاہیے۔ (عضل الجاہلیة ص ٣٦٨) پردہ کی حقیقت و صورت اَور پردہ کی رُوح : آج کل لوگ اِس کوشش میں بھی ہیں کہ مروجہ پردہ اُٹھادیا جائے اَور عورتیں کھلے مہار آزادی کے ساتھ فٹن پر بیٹھ کر گھوماکریں اَور اِس کو بے پردگی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ سخت بے حیائی ہے۔ باقی میں اِس کوبے پردگی نہ کہوں گا جو غریبوں کی عورتیں منہ چھپاکر گھونگٹ نکال کر میلے کچیلے کپڑوں میں شرم و حیا کے ساتھ اپنے کسی کام کے لیے باہر نکلتی ہیں اِس لیے کہ پردہ کی جو رُوح ہے وہ اِن کو حاصل ہے۔ یہاں سے اُن متکبرین کا جواب بھی نکل آیا جو علماء سے غریبوں کے متعلق بطورِ حقارت کے پوچھا کرتے ہیں کہ کیوں صاحب اِن جولاہوں تیلیوں کی عورتیں پردہ نہیں کرتیں باہر پھرتی ہیں اَور ہماری عورتیں پردہ کرتی ہیں کیا اِن کے پیچھے ہماری نماز ہوجاتی ہے ؟ میں کہتا ہوں کہ اِن کی عورتیں پردہ کرتی ہیں گو باہر نکلتی ہیں اَور تمہاری عورتیں پردہ نہیں کرتیں گو گھر میں بیٹھی ہیں چنانچہ چچازاد بھائی، نندوئی، دیور، جیٹھ، پھوپھی زاد بھائی، مامو ں زاد بھائی سب کے سامنے آتی ہیں اَور سامنے بھی ایسی صورت سے آتی ہیں کہ بنی ٹھنی مانگ نکال رکھی ہے مسی کی دَھری جمی ہوئی ہاتھوں میں کڑے چوڑیاں چڑھی ہیں گوٹے ٹھپے کے کپڑے ہیں اَور بالکل بے محابا سامنے آتی ہیں اَور پھر غضب یہ ہے کہ اُن کے ساتھ ہنسی مذاق دِل لگی بھی ہوتی ہے پھر کس منہ سے کہتے ہیں کہ