ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
عالم اَمر سے ہے جیسے قرآن میں آیا ہے : ( قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ) تو اِس اَمر ربی کی اِصلاح بھی اَمر ربی یعنی کلامِ اِلٰہی سے ہوگی اَور کلامِ اِلٰہی فی الحقیقت غذائِ رُوحانی ہے، بدن زمین سے ہے اِس کی غذا بھی زمین سے ہے اَور رُوح اَمر سماوی ہے تو اِس کی غذا بھی سماوی یعنی کلامِ اِلٰہی سے ہوگی، اگر جسم و بدن کی نشوونما اَور قوة و اِرتقاء زمین سے حاصل کردہ غذا کے بغیر ممکن نہیںتو رُوح کی ترقی و قوت اَور نشوونما بھی آسمانی غذا یعنی کلامِ اِلٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔ اَب رہا یہ فیصلہ کہ قرآن واقعی ایک عظیم غذائِ رُوحانی اَور کلامِ اِلٰہی ہے یا نہیں ؟ تو اِس کا فیصلہ تمام غذاؤں کے اُصول قانون کے مطابق کیا جائے گا، اگر غذا کے اِستعمال سے درستی ہوجائے، ضعف و کمزوری رُونما نہ ہو بلکہ سابق کمزوری بھی دُور ہوجائے تو ایسی غذا صحیح اَور مقوی غذا ہے اَور اگر کمزوری دُور نہ ہوئی بلکہ زیادہ ہوئی تو یہ کوئی غذا نہیں۔ اَب قرآن کے نسخہ کو صحابہ کرام نے اِستعمال کیا ، اُن کی زندگی قبل اَز اِسلام و قبل القرآن تمام بُرائیوں سے لبریز تھی۔ خدا پرستی کی جگہ بت پرستی، اِتحاد کی جگہ خانہ جنگی تھی، عدل کا نام نہ تھا بلکہ ظلم پر فخر کیا جاتا تھا، زِنا، شراب، سود خوری میں اِبتلا ء عام تھا۔ اِصلاح کے اَسباب میں سے کوئی سامان موجود نہ تھا، نہ تعلیم تھی نہ تربیت، نہ عدالت نہ قانون، نہ تعزیرات نہ سزا اَور لوٹ کھسوٹ زندگی کا عام معمول تھا قرآن آیا اَور ایسے لوگوں کی اِصلاح کے لیے آیا پھر قرآن کو اِصلاح کے لیے وقت بھی بہت تھورامِلا۔ نبوت کے تئیس سالہ زمانہ میں تیرہ سال مکی زندگی میں تو قرآن کی آواز کفار کے جبر و اِستبداد کی وجہ سے بند تھی کہ قرآن کی دعوت موت کو دعوت دینے کے برابر تھی۔ ہجرت کے بعد کی گیارہ سالہ زندگی میں اکثر حصّہ کفارِ عرب کی جنگوں اَور حملوں کی مدافعت میں گزرا، بمشکل تین چار سال صلح حدیبیہ اَور فتح مکہ کے بعد ایسے ملے کہ قرآن کو عرب پر اِصلاحی اَثر ڈالنے کا موقع ملا لیکن اِس مختصر عرصہ میں قرآن نے عرب پر وہ اَثر ڈالا اَور ایسی جماعت تیار ہوئی جن کا ظاہر و باطن ، اَخلاق، عقائد، اعمال، معاملات، معاشرہ، سیاست اَور بین الاقوامی تعلقات ایسے بن گئے جن کی نظیر تاریخ بشری میں نہ پہلے گزری ہے اَور نہ آئندہ ممکن ہے۔(باقی صفحہ ٦١ )