ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
رسالہ مظاہر علوم میں بھی بزرگوں سے متعلق اچھے مضامین آتے رہتے ہیں، اِس کا بھی اِجراء اِنشاء اللہ مفید ہوگا، آپ کے جامعہ کے مکاتب کی لائن سے مساعی جمیلہ سے تو مسرت ہوئی لیکن اِس سے قلق ہوا کہ دینی مساعی جمیلہ کے ساتھ کچھ لغویات بھی آپ نے معمول بنائی ہیں۔ ہمارے لاکھوں مسلم بچے اسکولوں میں جا کر اِرتداد کے رُخ پر جا رہے ہیں اِس کی تو ہمیں فکر نہیں اَور ہمارے پاس جو قرآن پڑھنے اَور حدیث مبارک پڑھنے آئیں اُن کو ہم اَپنے عمل سے یہ بتلائیں کہ تمہارا خیال قَالَ اللّٰہُ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ پڑھنے کا غلط ہے ،جہاں مسلمانوں کے لاکھوں بچے تباہ و برباد ہورہے ہیں تم بھی اُس راستہ پر جاؤ ۔ ہمارے اَکابر کے اَکابر نے تحریک ِجہاد ناکام ہونے پر سر جوڑ کر غیر منقسم ہندوستان میں یہ فیصلہ کیا کہ اَب ہندوستان میں اگر اِسلام اَور قَالَ اللّٰہُ وَ قَالَ الرَّسُوْلُ باقی رہ سکتا ہے تواِس کا واحد ذریعہ'' مکاتب کا قیام ''ہے۔ آج ملک پھر اِس موڑ پر کھڑا ہے ہم لوگ تعمیرات پر زور لگانے کے بجائے اَپنے مدرسوں پر زیب و زینت میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کریں، اَپنے مسلم بچوں کو کارو بار میں جھوکنے کے بجائے سکولوں میں بھرتی کرنے کے بجائے خاص مکتب کا بچہ تیار کریں ،بچپن میں مکتب میں آنے کے بعد اَور نمازی بننے کے بعد جس ماحول میں بھی بچہ جائے گا بچپن میں نمازی ہونے کی وجہ سے اِنشاء اللہ ہمیشہ نمازی رہے گا۔ اِس کی فکر ہم سب مدرسہ والوں کو کرنی چاہیے۔ اَور اِس کے ساتھ بڑوں پر اِس کی محنت کی جائے کہ بڑوں کا تعلق چلتے پھرتے