ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
بنالیا ،بکتے بکتے یہ پھررسول اللہ ۖ کے پاس آگئے ١ والد اَور بھائی ڈھونڈتے رہے کہاں گئے کہاں گئے، کہاں گئے ! پتہ ہی نہیں چلتا تھا آخر کار پتہ چل گیا چونکہ مکہ مکرمہ میں ہر طرف سے آمدورفت تھی ، یہاں اِن کو دیکھا کسی نے بتادیا کہ وہ وہاں ہیں وہ آئے اَوراُنہیں لے جانا چاہا مگر اِنہوںنے رسول اللہ ۖ کے پاس رہنا پسند کیا رسول اللہ ۖ کو یہ بات بہت پسند آئی آپ نے اِعلان فرمایا وہاں جو دَستور تھا کَعْبَةُ اللّٰہْ کے پاس جا کر یا کیسے کہ یہ آزاد بھی ہیں اَور میرا بیٹا ہے یہ آج سے گویا مُتَبَنّٰی بنالیا یعنی بیٹا ۔ تو اِس طرح سے (غلام بنانے کا)ہر جگہ پر دَستورتھا توکوئی اِسلام ہی میں نہیں تھا رواج۔ اِس عالمی رواج کی وجہ ؟ : ایسے ہی جنگی قیدیوں کو لے جاتے اَب جنگی قیدیوں کو لے جاکے ایک تو یہ کہ کیمپ میں رکھیں کہیں جیل خانے میں رکھیں ،اُن کے کھانے کا اِنتظام کریں، حفاظتوں کا اِنتظام ،اِس لمبے دَھندے میں کون پڑے ،اِقتصادی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔تو دُنیا بھر کی حکومتوں نے یہ سلسلہ کر رکھا تھا کہ جو جنگی قیدی ہیں اُنہیں بانٹ دو پبلک میں ،خصوصًا جو لڑنے والے مجاہدین ہوں اُن میں بانٹ دو اُن کو دے دو، بچے ہوں، بوڑھے ہوں، عورتیں ہوں، مرد ہوں سب کوبانٹ دو،مرد غلام عورتیں باندی، اِس طرح سے کرتے تھے۔ تو اِس سے اِقتصادی مسئلہ کوئی نہیں پیدا ہوگاایک آدمی کے حصہ میںایک آدمی آیا وہ آدمی بھی کام کررہا ہے غلام سے کام لے رہا ہے وہ، مزدُوری کرانی ہو کوئی اَور کام کرانا ہو ، رکشہ چلوانا ہو، کوئی اَور دَھندہ اِس طرح کا جو بھی ہو یاتجارت ہو۔ ١ زید بن حارثہ بن شراحیل الکلبی : مکہ کے قریب بطحاء کے مقام پر نبی علیہ السلام نے اِنہیں دیکھا کہ اِن کی سات سو درہم بولی لگائی جا رہی تھی،آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اِس کا ذکر کیا تو اُنہوں نے اپنے مال سے اِن کو خرید کر نبی علیہ السلام کی خدمت میں ہدیہ کر دیا۔آپ نے اِن کو منہ بولا بیٹا بنایا اَور آزاد بھی کر دیا۔(تہذیب التہذیب ج ٢ ص ٥٤٠ رقم الحدیث ٢٤٩٦) ۔محمود میاں غفرلہ