ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
اُنہوں نے اِنکار کر دیا اَور ہدایت کی کہ اِس رات کی بات کی تشہیر نہ کریں نہ میری زندگی بھر کسی کو بتلائیں اَور نہ ہی یہاں ملنے آیا کریں۔ اَگر آپ آتے رہے تولوگوں میں میری شہرت ہو جائے گی۔ '' اِس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ اَپنے ہاتھ سے محنت کر کے کمائے، رزقِ حلال حاصل کرے ۔ اَور اِس سے پہلے مذکورہ بالا حدیث شریف میں آپ نے دیکھا کہ مالِ حرام اَکٹھا کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اُس کی دُعا قبول نہیں ہوتی، اِس کے بالمقابل اِس عابد ِمدینہ منورہ کی دُعا کیسے قبول ہوئی بلکہ وہ کیسے'' مستجاب الدعوات'' تھے۔ عام لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ،اللہ کے اَنبیاء کبھی بھی خالی نہیں بیٹھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بکریاں چرانا توقرآنِ حکیم میں ہے اَور سب اَنبیاء ِکرام کا بکریاں چرانا حدیث شریف میں مذکور ہے۔ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ ''ہرنبی نے بکریاں چرائی ہیں۔'' ایک دفعہ اِرشاد فرمایا : مَا اَکَلَ اَحَد طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ اَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ وَاَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ دَاودَ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ۔ ( بخاری شریف کتاب البیوع رقم الحدیث ٢٠٧٢ ) ''اَپنے ہاتھ کی محنت سے کمائے ہوئے سے بہتر رزق کسی نے کبھی نہیں کھایا اَور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اَپنے ہاتھ کی محنت سے رزق حاصل کر کے کھایا کرتے تھے۔'' حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے سچے رسول اَیُّ الْکَسْبِ اَفْضَلُ کون سی کمائی اَفضل ہے ؟ قَالَ عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہ وَکُلُّ بَیْعٍ مَبْرُوْرٍ اِرشاد فرمایا کہ اِنسان کی اَپنے ہاتھ کی کمائی اَور ہر وہ خریدو فروخت جو (مذہبًا درست ہو اَور) اللہ کے نزدیک بھلی ہو۔