ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
بڑے قابل لوگ بھی غلام بن جاتے تھے : تو بڑے بڑے قابل بھی آجاتے تھے اِس میں، گرفتار ہوئے ہیں اچھے بھی برے بھی ،بڑی اَعلیٰ نسلوں کے بھی اَور کم خاندانوں کے بھی، جس طرح کے بھی ہوں۔ ایک عورت تھیں اُنہوں نے رسول اللہ ۖ کی خدمت میں آکرکہا میرا جو غلام ہے وہ نجار ہے بڑا اَچھا ترکھان ہے لکڑی کا کام بناسکتا ہے تو ممبر بنوایا تھا جناب ِ رسول اللہ ۖ نے ، اِسی طرح کسی کے پاس کوئی ہنر اَور کسی کے پاس کوئی، کوئی سینگی لگانا جانتے تھے کیونکہ غلام تو وہ مختلف نسلوں کے پکڑے ہوئے آگئے، بڑے بڑے قیمتی بھی ہوتے تھے اَب اُنہیں آپ نے بنادیا منیجر کار خانے کا یا اَپنے کاروبار کا یا کسی بھی چیز کا لیکن ہے وہ غلام ،اہلیت اُس میں ہے منیجر بن جائے گا، یہ ٹھیک ہے ۔ یہ اَیاز جو ہیں محمود کے ، یہ بھی غلام تھے یہاں لاہور ہی میں رنگ محل میں اِن کی قبر مبارک بھی ہے مگر بڑے اِعتماد کے اَوراِنہیں بڑا عہدہ اُس نے دیا جنرل بنادیا تو اِس طرح سے مختلف ہوتے تھے ۔ تو قوموں کو(اِس طریقہ کار کی وجہ سے غلام باندیاں سنبھالنے کے معاملہ میں اِقتصادی اَور اِنتظامی) دُشواری نہیں پیش آتی تھی لیکن یہ دَستور ایک عرصے تک رہا پھر ختم ہو گیا۔ اِسلام میں اَخلاقی قدروں کی اہمیت : اَب جب کوئی چیز ایسی ہو کہ جو اَخلاقًا برتری کی ہوتو مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ اُس سے زیادہ اَچھا برتاؤ کر کے دِکھائے جو غیر مسلم کر رہا ہو ۔توآج اَگر یہ دَستور ہٹ گیا غلام بنانے کا اَور اَب اِن کو جنگی قیدی بنا کر رکھتے ہیں اَور کھانا پینارہنا سہنا سب اُن کا ایک جگہ کرتے ہیں قیدیوں ہی کی طرح سے تو ہم بھی اُسی طرح سے کریں گے اَور غلام نہیں بنا سکیں گے، اَگر وہ اِس دَستور کو توڑدیں اَور غلام بنانا شروع کردیں تو پھر ہم بھی کر لیں گے ایسے۔ تاریخ سے جہالت کی وجہ سے اِسلام پر اِعتراض : اَب وہ کہتے ہیں کہ اِسلام میں یہ کیا تھاغلام بنانا ! اَرے بھائی اِسلام میں کہاں تھا ساری