ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
میں تواِن کے یہاں(سال میں) دو دفعہ پھل پیدا ہوتا تھا یہ برکات تھیں جو نظر آتی تھیں۔ اِنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ میں کماکر اِنہیںاَپنی قیمت دے دُوں ،جو قیمت یہ کہیں کماسکتا ہوں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بُلا کر کہاکہ دیکھو مسلمان بھی ہوگیاہے یہ کمابھی سکتاہے اِسے چھوڑ دو اِسے آزاد کردو کتابت کردو ''مکاتبت ''کہتے ہیں اِس کو کہ وہ قیمت اَپنی دے دے تو آزاد۔ اِنہوں نے منع کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِن پر کوڑ ا اُٹھا یا وہ چھوٹا سا کوڑا دِرّہ کہتے ہیں وہ رہتاتھا اِن کے پاس توحکمًا کہاکہ کرو اِس معاملہ کو طے، پھر اُنہوں نے معاملہ طے کیا اَور آزاد کر دیا اُن کو۔ غلاموں کو آزاد کرنا عبادت کا درجہ : اِسلام میں تویہ چیزیں بطورِ عبادت کے بتائی گئیں ہیں کہ کسی نے کوئی غلط قسم کھالی توکیا ہے کفارہ ؟ توغلام آزاد کرے (قرآنِ پاک میں ہے) ( اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ اَیَّامٍ ) اِن چار چیزوں میں سے کوئی سی چیز کرلے تین دِن روزے رکھنے ہیں یا دس آدمیوں کوکھانا کھلانا ہے یا کپڑے پہنانے ہیں یا غلام آزاد کرنا ہے ،حیثیتیں مختلف ہوتی ہیں لوگوں کی بعضے کچھ بھی نہیں دے سکتے تو تین روزے ہی رکھیں قسم کے کفارہ میں۔ اَور پتہ نہیں کتنی چیزوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کا حکم آتا ہے اَور فضیلتیں اَلگ آگئیں اِس میں۔ تویہ ایسا اِعتراض نہیں ہے کہ جس میں مسلمان شر ما جائیں یہاں سے جانے والے اِحساسِ کمتری میں مبتلاء ہوتے ہیں تو شرما جاتے ہیں جواب نہیں دیتے ورنہ جوابات تو اُس کے بہت عمدہ ہیں اَور اِسلام نے تو وہ برتری دی ہے غلاموں کو کہ جو دُنیا میںاِس سے پہلے کبھی بھی حاصل نہیں رہی ،کسی کوبھی حاصل نہیں رہی کبھی بھی۔