ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
اُس نے یہ بات سُنی اَور اَپنی دونوں اُنگلیاں آسمان کی طرف اُٹھا کر کہا فَاَیْنَ اللّٰہُ ؟ پھر خدا کہاں ہے ؟ اَور چلا گیا۔ حضرت اِبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اِس جواب کا بہت اَثرہوا اَور با ر بار دہراتے رہے قَالَ الرَّاعِیْ فَاَیْنَ اللّٰہُ ؟ (چرواہا کہتا ہے ! پھراللہ کہاں ہے ؟ )۔'' اِس واقعہ میں ایک غلام کی دیانت داری ،محنت اَور کسب ِ حلال کا حال معلوم ہورہا ہے اگر وہ ساری باتیں کر لیتا لیکن کسب ِحلال نہ ہوتا توسب بیکار تھا ۔ حدیث پاک میں اِرشاد ہے : اِنَّ اللّٰہَ طَیِّب لاَ یَقْبَلُ اِلَّاطَیِّبًا وَاَنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ( یَاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ) وَقَالَ تَعَالٰی : ( یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ) ثُمَّ ذَکَرَالرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَآئِ یَارَبِّ یَارَبِّ وَ مَطْعَمُہ حَرَام وَمَشْرَبُہ حَرَام وَ مَلْبَسُہ حَرَام وَ غُذِیَ بِالْحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذَالِکَ ؟ ( مشکوة شریف رقم الحدیث ٢٧٦٠ ) ''حق تعالیٰ عیوب سے پاک ہیں اَور وہ مالِ حلال ہی قبول فرماتے ہیں اَور حق تعالیٰ نے مومنین کو اُس بات کا حکم فرمایا ہے کہ جس کا رسولوں کو حکم فرمایا تھا (کیونکہ ایک جگہ فرمایا) حلال راہوں سے کھاؤ اَور نیک کام کرو (تو دُوسری جگہ عام مؤمنین کو خطاب کرکے یہی بات فرمائی) اِرشاد فرمایا اے اِیمان والو ! حلال چیزیں کھاؤ جوہم نے تمہیں عطا کی ہیں پھر فرمایا کہ ایک آدمی لمبا سفر کرتا ہے پرا گندہ سر اَور غبارآلود ہوتا ہے اَپنے ہاتھ آسمان کی طرف دَراز کر کے یَارَبِّ یَارَبِّ کہتا ہے حالانکہ اُس کا کھانا حرام ہے پینا حرام ہے لباس حرام ہے اَور اُسے (پہلے ہی سے ) حرام پر پالا گیا ہے توایسے آدمی کی دُعا کہاں قبول کی جائے گی۔ ''