ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
سیاسی ملفوظات : (١) حضرت مولانا محمد اِسماعیل صاحب سنبھلی فرماتے ہیں :١٩٣٥ء کے حج میں میں بھی ہمراہ تھا ،مدینہ منورہ میں حضرت کے بڑے بھائی مولانا سیّد اَحمد صاحب نے حضرت سے فرمایا یہاں مرکز (مدینہ منورہ) کی حالت خراب ہے اَور آپ لوگ ہندوستان میں مزے اُڑا رہے ہیں۔ حضرت نے اِرشاد فرمایا جی ہاں ! ہندوستان میں بھی مرکز (مدینہ منورہ) کی خاطر پڑا ہوں، ہندوستان ہی ایسی جگہ ہے کہ اَگر وہ آزاد ہو گیا تومرکز بھی ٹھیک ہوجائے گا اَور تمام بلادِ اِسلامیہ آزاد ہوجائیں گے۔ وہ لوگ حضرت رحمہ اللہ کی سیاسی بصیرت ملاحظہ فرمائیں جو یہ کہتے ہیں کہ علماء سیاست سے کیا واقف ؟ حضرت نے بارہ سال قبل ایسی بات بیان فرمائی جس کا راز ١٩٤٧ء میں ظاہر ہوا کہ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ تمام ممالک ِ اِسلامیہ آزاد اَور سر بلند ہونے لگے ہیں۔ (٢) طلبہ کے ایک جلسہ میں راقم الحروف کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا : جہاد تلوار سے ہی نہیں ہوتا بلکہ جہاد کے متعدد ذرائع ہیں ،یہ مذہبی جلسے بھی کفر کے خلاف جہاد ہیں۔ (٣) ایک جلسہ میں اِرشاد فرمایا : آزادی اِنسان کا پیدائشی حق ہے اِس لیے ہر اِنسان کو اِس کے حصول کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے، اگر کوئی چیونٹی بن کر محض دُشمن کو کاٹ ہی سکتا ہے تو اُسے ضرور کانٹا چاہیے۔ (٤) فریضۂ جہاد اَدا کرنے اَور اُس کے عمل میں لانے کے لیے کسی قسم کے ہتھیار اَور خاص طریقۂ جنگ کی قید نہیں ہے بلکہ ہر وہ عمل اَور ہر وہ ہتھیار جو کہ دُشمن کو زَک پہنچاسکے اَور اِقتدار اَور شوکت میں ضر ررساں ہووہ اِختیار کرنا لازم ہے اَور واجب ہے۔ (٥) گاندھی کیپ کے متعلق اِرشاد فرمایا کہ لوگوں کا گاندھی کیپ کو گاندھی جی کی طرف منسوب کرنا غلط ہے بلکہ اَصلیت اِس کی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کانگریس کمیٹی میں قومی لباس کاسوال اُٹھا تو حکیم اَجمل خاں صاحب نے اَپنے سر سے ٹوپی اُتار کر پیش کی کہ اِس قسم کی ٹوپی قومی لباس میں داخل ہونی چاہیے۔