ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
اَور تیسرا وَرَجُل کَانَتْ عِنْدَہ اَمَة یَطَئُھَا فَاَدَبَّھَا فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبَھَا وَ عَلَّمَھَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا ثُمَّ اَعْتَقَھَا فَتَزَوَّجَھَا فَلَہ اَجْرَانِ ١ کسی کے پاس باندی تھی تو باندی کو اُس نے تعلیم دی اُس کو اَدب سکھایا ،یہ اَدب ایسی چیز ہے کہ اَگر کوئی لینے والی طبیعت ہوتو لے لیتی ہے اَور نہ لینے والی طبیعت ہو تو اَچھے خاصے بااَدب لوگوں کے یہاں بے اَدب قسم کے پیدا ہوجاتے ہیں ،لیتے ہی نہیں ، وہ تہذیب ہی نہیں قبول کرتے تواِس نے اُس کو تعلیم دی اُس کو آداب سکھائے پھر اُس کو آزاد کر دیا پھر شادی کرلی تو اُس کو ڈبل اَجر مِلے گا، ڈبل اَجر ڈبل کاموں پر ہو گیا تعلیم وتادیب اَور آزاد کرنا ۔ یہ دو کام اُس نے کیے پھر شادی کر نے کے بعد اُس کا دَرجہ اَور بڑھا دیا، پہلے وہ باندی غلام جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی دُنیا میں بعد میں اُس نے اُس کو اَپنے گھر کا فرد بنالیا اِنسانی حیثیت سے اُس کو اَپنے برابر کا کرلیا اَپنے خاندان کا جز بنا لیا تو اِس طرح سے دو کام جس نے کیے اُس کو بھی ڈبل اَجر مِلے گا۔ اِسلام پر اہل ِیورپ کا بے جا اِعتراض : بڑا اِعتراض کرتے ہیں یورپ والے غلامی پر کہ اِسلام میں یہ غلام بنالیناایسی چیز ہے وغیرہ وغیرہ، بے محل اِعتراض ہے ۔یہ آج کرتے ہیں ،اُس زمانے میں تھا ہی یہ دَستور، اَگر کوئی کسی کو بھی پکڑ لے اَور بیچ دے توعیب نہیں تھا،اُس میں سارے ہی داخل ہیں۔ حضرت صہیب کا واقعہ : میں نے شاید پہلے بتایا کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جنہیں ''صہیبِ رُومی'' کہتے ہیں (یہ اَصل میں عرب تھے) تو یہ اَپنے آپ کو عربی کہتے تھے اَور عربی جانتے بھی تھے اَور جب عربی بولے گاغیر عربی تو (اُس وقت تک) صرف و نحو اَور قواعد تو اِتنے نہیں تھے اِس لیے اُس میں غلطی ہوتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ بھائی خدا سے ڈرو یہ نسب اَپنا تم ''عربی'' بتاتے ہو یہ کیا ہے ؟ ١ بخاری شریف کتاب العلم رقم الحدیث ٩٧ ، مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ١١