ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
مگر بڑی تکلیف سے میں اُن تک پہنچ سکا۔ جب ہارون نے اَپنے محل میں جا کر یہ رُقعہ پڑھا تو مجھے بلالیا اَور کچھ ڈانٹ ڈپٹ کی ۔ میں نے اُس کے غصہ کے تیور دیکھ کر اَنگوٹھی نکالی۔ جب اُس نے اَنگوٹھی دیکھی تو پوچھا کہ تمہارے پاس یہ اَنگوٹھی کہاں سے آئی ؟ میں نے کہا کہ مجھے تو ایک معمار نے دی ہے۔ اُس نے بہت تعجب سے کہا معمار نے ! معمار نے ! پھر مجھے اُس نے اَپنے نزدیک بلالیا۔ میں نے کہا ''اے اَمیر المؤمنین ! اُس نے مجھے ایک وصیت بھی کی تھی۔'' اُس نے کہا کہو کیا وصیت کی تھی ؟ میں نے کہا کہ اَمیر المؤمنین ! اُس نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ جب یہ اَنگوٹھی پہنچا دو تو کہنا کہ اِس اَنگوٹھی والے نے آپ کو سلام کہا ہے اَور یہ کہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو اِس نشہ غفلت میں موت آئے کیونکہ اَگر اِس حالت میں موت آئے تو ندامت اُٹھانی پڑے گی۔ ہارون رشید یہ بات سنتے ہی کھڑا ہو گیا اَور اَپنے آپ کو بچھے ہوئے فرش پر زور سے گرا کر تڑپنے لگا اَور زبان سے کہتا جاتا تھا کہ '' اے پیارے بیٹے ! تو نے اَپنے باپ کو( صحیح) نصیحت کی '' میں یہ دیکھ رہا تھا اَور دِل میں سوچ رہا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِس کا بیٹا تھا پھر تھوڑی دیر بعد طبیعت سنبھلی تو بیٹھ گیا اَور لوگ پانی لائے اِس کا منہ پونچھا تو مجھ سے پوچھنے لگا کہ تمارا اِس سے کیسے تعارف ہوا ؟ تو میں نے سارا واقعہ سنایا ۔ وہ پھر رونے لگا پھر اُس نے خود ہی بتلایا کہ