ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
یہ میرا سب سے پہلا لڑکا تھا میرے والد میری شادی زُبیدہ سے کرنی چاہتے تھے اَور میں نے اُن کی اِطلاع کے بغیر اِس کی والدہ سے شادی کر لی تھی وہ بہت خوبصورت خاتون تھی، اُس سے یہ بچہ پیدا ہوا، میں نے والد کا منشاء دیکھتے ہوئے اِن دونوں کو بصرہ پہنچادیا۔ اُس بیوی کو یہ اَنگوٹھی اَور دیگر اَشیاء دیں اَور کہا کہ اَپنے آپ کو چھپائے رکھنا اَور اگر میں تخت نشین ہوجاؤں تو میرے پاس آجانا۔ اِس لڑکے نے علم حاصل کیا اَور قرآنِ پاک حفظ کیا، بہت اچھی صلاحیتیں تھیں۔ میں نے تخت ِخلافت پر بیٹھتے ہی اِنہیں تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ اِن دونوں کا اِنتقال ہو گیا ہے اَور یہ پتہ نہ چل سکا کہ لڑکا حیات ہے تم یہ بتلاؤ کہ اُسے تم نے کہاں دفن کیا ہے ؟ میں نے کہا مقا برِ عبداللہ بن مالک میں۔ پھر ہارون، عبداللہ بن فرج کے ساتھ اُس کی قبر پر گیا ،رات بھر روتا رہا، اَپنے سر اَور داڑھی کو قبر پر پھیرتا تھا اَور بار بار کہتا تھا : '' بیٹا ! تو نے اَپنے باپ کو نصیحت کردی '' میں ہارون کی اِس حالت کو دیکھ کر رونے لگا صبح کے وقت واپس آیا۔ ہارون رشید نے عبداللہ بن فرج کے لیے دس ہزار درہم کا حکم فورًا ہی دے دیا اَور کہا کہ تم اَور تمہارے اہل و عیال وغیرہ جن کی بھی تم پر ذمہ داری ہے سب کو اَپنے گھر والوں کے ساتھ لکھے لیتا ہوں ،تم نے میرے بیٹے کی تجہیز و تکفین کی ہے، تمہارا مجھ پر حق ہے بلکہ میں اَپنے بعد آنے والے خلیفہ کو بھی تمہارے متعلق وصیت کر جاؤں گا۔'' بہرحال اِس قصہ سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اہل اللہ اَپنی محنت اَور قوت ِ بازو کی کمائی پر قناعت پسند کیا کرتے تھے اَور وہ اللہ کے پیارے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی رزقِ حلال نصیب فرمائے اَور اپنی رضا و توفیق ِ مرضیات سے نوازے، آمین۔