ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
اُس غلام کی یہ محنت و دیانت رائیگاں نہیں گئی بلکہ حضرت عبداللہ مدینہ منورہ تشریف لائے تواُس کے آقا کے پاس آدمی بھیجا اَور اُس غلام کو اَور اُن بکریوں کوخرید کر غلام کو آزاد کردیا اَور اُسے وہ بکریاں بخش دیں۔ حق تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ ( اِنَّا لَانُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا ) (پارہ ١٥ ع ١٦) ''جو اَچھاکام کرتا ہے ہم اُس کا اَجر رائیگاں نہیں جانے دیتے۔'' ٭ اِبن جوزی رحمة اللہ علیہ ایک اِسی قسم کے مقبولِ بارگاہ بندے کا ذکر کرتے ہیں جو مدینہ منورہ میں رہا کرتے تھے کہ محمد اِبن منکدر فرماتے ہیں کہ '' میں ایک مرتبہ رات کو منبر کے سامنے دُعا مانگ رہا تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو اُسطوانہ (ستون) کے پاس سر اُوپر اُٹھا کر دُعا کر رہا تھا : اے پروردِگار ! قحط، تیرے بندوں کے لیے قحط بہت شدید ہو گیا ہے۔ اے پروردِگار ! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ضرور بارش نازل فرما دے۔ اِس کے بعد تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بادل آیا اَور بارش شروع ہو گئی۔ اِبن منکدر اَپنے دِل میں سوچنے لگے کہ ایسا شخص مدینہ شریف میں موجودہے اَور میں اُس سے متعارف نہیں ہوں توجی چاہا کہ ایسے بزرگ سے ضرور واقفیت حاصل کی جائے، وہ صاحب جب نمازِ فجر سے فارغ ہوئے تواُنہوں نے اَپنے سر پر کچھ اَوڑھا اَور چل دیے۔ اِبن ِ منکدر نے اُن کے پیچھے پیچھے جا کر اُن کی رہائشگاہ دیکھ لی اَور پھر دِن میں دُوسرے وقت وہاں ملنے کے لیے پہنچے تو اَندر سے لکڑی تراشنے کی آوازآرہی تھی۔ اِنہوں نے اِجازت چاہی اَندر پہنچے تودیکھاکہ وہ خود لکڑی کے پیالے تراش رہے ہیں۔ اِبن ِ منکدر نے اُن سے گفتگو کے دَوران دَرخواست کی کہ اَگر آپ کو اِتنا دیا جائے کہ آپ یکسو ہوکر خدا کی عبادت کرتے رہیں توکیسا ہو ؟