ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
جناب رسالت مآب ۖ نے مکی زندگی میں تجارت کی ہے اَلبتہ مدینہ منورہ میں حالات دُوسرے تھے وہاں جہاد کاسلسلہ زیادہ رہا۔ قرآنِ پاک ایسی ہی پاکیزہ کمائی خرچ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ( یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَاکَسَبْتُمْ ) (پارہ ٣ ع ٥) ''اے اِیمان والو ! اَپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو۔ '' رسالت مآب ۖ نے ایک مرتبہ یہ جملہ بھی اِرشاد فرمایا : عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَة ''ہر مسلمان پر صدقہ دینا لازم ہے ۔'' (بخاری شریف ص ١٩٤) گویا اِس طرح کمانے پر آمادہ فرمایا اَور کمائی کے طریقے بھی بتلائے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر اَپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھہ لاد کر لائے اَور بیچ دے اَور اللہ تعالیٰ (اِس کے ذریعے) اُس کے چہرے کو ذلت سے بچالے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے بہ نسبت اِس کے کہ لوگوں سے سوال کرے اَور لوگ دیں یا منع کریں۔ (بخاری شریف ص ١٩٦) حضرت اِبن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب صدقہ کی آیت اُتری توہم بوجھ اُٹھا اُٹھا کر کمایا کرتے تھے (اَور صدقہ دیا کرتے تھے)۔ (بخاری شریف ص ١٩٠ ) حضرت حکیم بن حزام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ سے مانگا تو آپ نے عنایت فرمادیا، اِسی طرح تین دفعہ ہوا۔ تیسری دفعہ میرے سوال کے مطابق عطا فرما کر رسول اللہ ۖ نے کچھ نصیحتًا اِرشاد فرمایا اُس میں یہ جملہ بھی تھا : اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْر مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (بخاری شریف ص ١٩٢ ) رسول اللہ ۖ کی نصیحتوں کے بعد اُنہوں نے اِس پر اِتنی سختی سے عمل کیا کہ کبھی کسی سے کچھ نہیں لیا اَپنی کمائی پر زندگی بسر کی۔