ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2013 |
اكستان |
|
''نافع جو حضرت عبداللہ اِبن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ گرمیوں کے دِنوں میں مدینہ منورہ کے اَطراف میں ایک جگہ حضرت اِبن عمر کے ساتھ گیا، ساتھ میں کچھ اَور لوگ بھی تھے دَستر خوان بچھایا گیا، اِتنے میں ایک چرواہا گزرا ۔ حضرت عبداللہ نے اُسے کھانے میں شرکت کے لیے بلایا۔ اُس نے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اِتنی سخت گرمی میں اِن گھاٹیوں اَور پہاڑوں میں بکریوں کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہو اَور روزہ سے ہو۔ اُس نے عرض کیا کہ اُبَادِرُ اَیَّامَ الْخَالِیَةِ میں نیکی میںاِن دِنوں سے سبقت کر رہا ہوں جو گزر ہی جائیں گے (یعنی اِس وقت کو غنیمت سمجھتا ہوں جو گزر رہا ہے اَور اِسے کام میں لانے میں عجلت سے کام لے رہا ہوں کیونکہ یہ پتہ نہیں کہ کتنی مدت اَور باقی ہے اَور وقت ایسی چیز ہے جو گزر ہی جاتا ہے)۔ حضرت اِبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُس کا یہ جواب عجیب لگا، آپ نے فرمایا کہ پھر ایسا کرو کہ ایک بکری ہمارے ہاتھ فروخت کردو، ہم اُسے ذبح کر کے کچھ گوشت تمہیں دے دیں گے اُس سے تم اِفطار کر لینا ۔ اُس نے کہا کہ یہ بکریاں میری نہیں ہیں میرے آقا کی ہیں (اَور مجھے فروخت کرنے کا اِختیار نہیں ہے)۔ حضرت اِبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس کی یہ دیانت و عبادت دیکھی تو اُسے تھوڑا سا آزمانا چاہا، فرمایا کہ اَگر تم اَپنے آقا سے جواب میں یہ کہہ دو گے کہ اُسے بھیڑیا کھا گیا تھا تو وہ کیا کہے گا۔