ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
قسط : ١٧ پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) ض ض ض فصل : مروجہ پردہ کا ثبوت فتنہ اَور شہوت سے محفوظ آدمی کا جوان عورت سے گفتگو کرنے اَورچہرہ دیکھنے کا شرعی حکم : سوال : کسی سلیم الفطرت شہوت سے محفوظ جوان آدمی کا کسی غیر محرم خوبصورت جوان عورت سے بلا ضرورتِ شدیدہ کے گفتگو کرنا اَور گفتگو کرتے وقت بلا شہوت اُس کے چہرہ کی طرف دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ جائز نہ ہونے کی صورت میں شرعی دلائل کیا ہیں ؟ یہ بات بھی پیش ِ نظر رہے کہ بعض صحابیات کھلے چہرے کے ساتھ حضور ۖ کے سامنے حاضر ہوتی تھیں اَور خاکسار کو اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں مِلا کہ حضور ۖ نے کبھی اُنہیں پردہ کا حکم دیا ہو۔ اَلجواب : سلیم الفطرت نیک دِل پاکباز مرد کو بھی اَجنبی جوان عورت سے بغیر سخت مجبوری کے بات چیت کرنا اَور بغیر شہوت اَور بغیر بری نیت کے اُس کے چہرہ کی طرف دیکھنا جائز نہیں۔ اَور یہ کہیں ثابت نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عورتوں کا رسول اللہ ۖ کے سامنے چہرہ کھولنا بلا ضرورت کے نہ تھا بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے تھا پھر ضرورت کی حالت میں حضور ۖ اُن کو کیسے منع فرماتے خصوصًا جبکہ آپ شرعی حکم کو عام طور پر اَپنے اِرشادات میں ظاہر بھی فرما چکے ہیں تو اِس کے بعد بعض عورتوں کا چہرہ کھول کر آپ ۖ کے سامنے آنا یقینًا ضرورت کی وجہ سے تھا۔ اَور یہ بات بھی ثابت نہیں کہ حضور ۖ اُن کی طرف قصدًا نظر فرماتے تھے اَور نہ یہ ثابت ہے کہ اُس وقت بے پردگی کی عام طور پر عادت تھی۔ چنانچہ اَحادیث ملاحظہ ہوں :