ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
اَخلاقی و رُوحانی تعلیم کی ضرورت ( حضرت مولانا اِسرار الحق صاحب قاسمی، صدر آل اِنڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن ،اِنڈیا ) ض ض ض عصرِ حاضر میں تعلیم کے حصول کی طرف لوگوں کا رُجحان بڑھتا جا رہا ہے اِسی لیے اسکولوں، کالجوں اَور یونیورسٹیوں میں طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نظر آرہی ہے۔ یہ ایک بہترین بات ہے کہ تیزی کے ساتھ تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے اَور بلا تفریق اَمیر و غریب اَور خواص و عوام سب اِس میں دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ گزشتہ اَدوار میں تعلیم حاصل کرنے والے گنے چنے لوگ ہوتے تھے اَور وہ بھی مخصوص خاندانوں کے، لیکن اَب ایسا نہیں ہے۔ تعلیم کی موجودہ صورت ِحال کو دیکھ کر اُمید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں تعلیم کا رواج اَور زیادہ بڑھے گا اَور نئی نسلیں مزید تعلیم کی طرف متوجہ ہوںگی۔ تعلیم کے میدان میں یہ بڑھتی ترقی یقینًا خوش آئند ہے لیکن حیران کن اَمر یہ ہے کہ تعلیم کے جس قدر فوائد سامنے آنے چاہیے تھے، وہ نہیں آرہے ہیں، مادّی شعبہ میں تو یقینًا ترقی ہو رہی ہے لیکن رُوحانی اِعتبار سے موجودہ دَور کا اِنسان اِنحطاط پذیر ہے، صرف وہ لوگ ہی اَخلاقی و رُوحانی لحاظ سے کمزور نہیں جو ناخواندہ ہیں بلکہ وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں اُن میں بھی اَکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی اَخلاقی و رُوحانی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سوال یہ کہ آخر حصولِ تعلیم کے بعد یا اَعلیٰ ڈگریوں کے حاصل کرنے کے بعد اُن کی زندگی میں اِنقلاب برپا کیوں نہیں ہوتا ؟ کیوں اُن کے اِنسانی و اَخلاقی اَوصاف میں نکھار پیدا نہیں ہوتا ؟ دَر اصل اِس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم تو حاصل کرتے ہیں لیکن تعلیم کا جو مقصد اُنہوں نے متعین کیا، اُس نے تعلیم کو غیر مفید بنادیا ہے۔ آج زیادہ تر لوگ تعلیم اِس لیے حاصل کرتے ہیں کہ اُن کی معاشی حالت بہتر ہو جائے، اُنہیں عمدہ بڑی پوسٹ مل جائے، وہ آسانی سے زیادہ دَولت کما سکیں، حصولِ تعلیم کے اِس مقصد نے اُنہیں ایسے مضامین کے اِنتخاب کرنے پر مجبور کردیا جن