ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
٭ حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم کو اِس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ عید کے دِن حیض والی عورتوں اَور پردہ میں بیٹھنے والیوں کو بھی عید گاہ لے جائیں۔ (بخاری و مسلم ) اِس میں ذَوَاتُ الْخُدُوْرِ کا لفظ جس کے معنٰی ''پردہ میں بیٹھنے والیاں ہیں'' اِس دعوی کو ثابت کر رہا ہے کہ حضور ۖ کے زمانہ میں بے پردگی کی عام عادت نہ تھی۔ ٭ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے ایک خط دینے کو رسول اللہ ۖ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔(بخاری و نسائی ) اِس میں عورتوں کو خود رسول اللہ ۖ سے تیسرے درجہ کا گہرا پردہ کرنا مذکور ہے۔ ٭ اَبو السائب اَبو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان صحابی کے قصہ میں جس کی شادی کو کچھ ہی دِن گزرے تھے روایت کرتے ہیں کہ وہ نوجوان حضور ۖ سے اِجازت لے کر اَپنے گھر گیا تو اُس کی بیوی دَروازہ پر کواڑوں کے بیچ میں کھڑی ہوئی تھی ۔نوجوان نے اپنا نیزہ اُس کی طرف سیدھا کیا تاکہ اُس پر حملہ کرے اَور غیرت کے جوش سے بے تاب ہو گیا۔ (مسلم شریف) اِس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ پردہ کی رسم اُس زمانے کے لوگوں کی طبیعتوں میں ایسی جمی ہوئی تھی کہ نوجوان صحابی رضی اللہ عنہ دَروازہ پر اپنی بیوی کو کھڑی دیکھ کر طیش (غصہ) سے بے تاب ہو گئے۔ ٭ اَور قصہ ٔاِفک میں جس میں منافقوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹا بہتان لگایا تھا صحابہ کا خالی ہودَج کا اُونٹ پر باندھ دینا اَور یہ خیال کرنا کہ اِس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہیں، نہایت مضبوط تائید ہے اُس وقت کی ڈولی کی اَور بی بی کے نہ بولنے کی۔(ور نہ ہودَج باندھنے والوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاموشی سے شبہ ہوتا کہ شاید ہودَج خالی ہو) اِن سب اَحادیث میں صاف تصریح ہے کہ اُس زمانے میں ایسا ہی پردہ تھا جیسا کہ آج کل ہمارے اَطراف کے شرفاء کی عورتوں میں رواج ہے۔ (ثبات الستور مع شرح و تسہیل ص ٢٧، ٢٨، ٢٩) ض ض ض (جاری ہے) ض ض ض