ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
سے تعلق رہے گا اَور وہ تعلق فنا ہونے والا نہیں ہے ،تعلق کا دوام اَور عدمِ دوام عارضی ہونا مستقل ہونا یہ خدا کے اِرادے پر موقوف ہے اللہ کے فیصلے پر موقوف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چیز جو فطرت بنادی ہے بس وہ چل رہی ہے کوئی چیز سمجھ میں آتی ہے کوئی سمجھ میں بھی نہیں آتی آدمی کہتا ہے کہ یہ ہوگیا یہ ہوگیا جو ہورہا ہے قدرت کی طرف سے اُس کی خبر دے دیتا ہے، بادل آرہے ہیں یہ ہورہا ہے بارش ہورہی ہے یہاں بھی ہوجائے گی اَنداز ہے ضروری نہیں ہے کہ بادَل آجائے تو بارش ہوجائے، یہ اَنداز ہوا۔ طبیعیات (فزکس)کے اُصول اَٹل مگر اللہ کی تخلیق ہیں ،اللہ چاہے تو ٹوٹ سکتے ہیں جیسے حضرت اِبراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہو جانا : اَور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ نے فیصلے کے طورپر کردی ہیں ،پانی جو ہے نشیب میں ہی جائے گا نیچے کی طرف اَور بھاپ جو ہے اُوپر ہی کی طرف جائے گی دُھواں اُوپر ہی کی طرف جائے گا، اِن کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا اِنسان کا اِتنا عادی ہو گیا ہے دیکھ دیکھ کر کہ خیال ہی نہیں جاتا کہ یہ قدرت نے کیا چیز کر رکھی ہے، یہ قدرت نے دائمی فیصلے دے دیے اِس دُنیا میں اِن کا اُلٹ بھی ہو سکتا ہے پانی اُوپر جائے بھاپ نیچے آئے کیونکہ اللہ کے اِرادے پر ہے مدار سارا، جو کشش بھاپ کی اُوپر رکھ دی ہے وہ اَگر نیچے رکھ دی جائے تو نیچے آئے گی بھاپ۔ رُوح کا تعلق جسم سے : تواِسی طرح رُوح کا اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ قیامت تک اَور اُس کے بعد تک ہمیشہ کے لیے اِنسانی رُوح جن اَجزا سے اُس کا تعلق ہے وہ رہے گا وہ نہیں ہٹے گا اَجزا چاہے جانور کھا جائے چیل کوے کھاجائیں اَور چاہے وہ جلا کے فنا کردیے جائیں اُڑا دیے جائیں پھر بھی رُوح جو ہے وہ اُنہیں جمع کر لے گی اَور جب جان آجاتی ہے تو وہ سارے اَجزا پھر کام کرنے لگتے ہیں کہیں سے جان نکل جائے تو وہی بیکار ہوجاتا ہے حصہ ،جان ہو توکام کرتا ہے وہ حصہ۔ تو حق تعالیٰ نے رُوح سے جو تعلق