ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
''اَوگرا'' کے اِس مذموم اِقدام پر وفاق المدارس پاکستان کے ناظم حضرت مولانا محمد حنیف صاحب جالندھری نے ایک مختصر اَور جامع تحریر ہمیں اَرسال فرمائی ہے ہم اِس کو اَپنے اِداریے میں شامل کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں : مساجد ومدارس کو سوئی گیس بم سے نشانہ بنانے کی اَفسوس ناک کوشش اللہ رب العزت نے وطن ِ عزیز پاکستان کو 1950 ء کی دہائی میں سوئی گیس کی نعمت سے نوازا تھایہ وہ نعمت ہے جو پاکستان کو کسی غیر ملک سے خریدنی نہیں پڑتی بلکہ یہ قدرت کا اَنمول عطیہ مفت میں عنایت کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سوئی گیس کا اِستعمال 1950 ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا تھا۔ اُس وقت سے لے کر اَب تک یعنی گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ کے دوران مساجد، مدارس اَور دیگر دینی اِداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کی طرح کی جا رہی تھی۔ ہم لوگ عرصہ ٔدراز سے حکومت ِ وقت سے یہ مطالبہ کرتے آ رہے تھے کہ چونکہ مساجد اَو رمدارس فلاحی اِدارے ہیں جو حکومت کی اِمداد کے بغیر گرانقدر خدمات سر اَنجام دے رہے ہیں اَور اُنہوں نے لوگوں کی دینی ضروریات پوری کرنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے، اِس لیے اِن دینی اِداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کے مقابلہ میں رعایتی نرخوں پر ہونی چاہیے۔ ہمارے اِس دیرینہ جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت ِ پاکستان کے ذیلی اِدارے ''اَوگرا'' نے ٢٢ ستمبر ٢٠١٢ء سے مساجد، مدارس اَور دیگر دینی اِداروں کو عام گھریلو صارفین کے زمرے سے نکال کر اِسلام دُشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر اِن دینی اِداروں پر ناقابل ِ برداشت معاشی بوجھ ڈال دیا ہے۔ چنانچہ مساجد ودینی مدارس میں گیس کنکشن حاصل کرنے کا خرچہ 3000 روپے