ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
''سب سے اَوّل مولوی رحمت اللہ کیرانہ سے اِس ٹوہ میں آئے کہ دہلی میں جہاد کی کیا صورت ہے، وہ بڑے عالم فاضل تھے عیسائی مذہب کے رَد میں صاحب ِ تصنیف تھے، وہ قلعہ کے پاس مولوی محمد حیات کی مسجد میں اُترے اِس دانشمند مولوی کے نزدیک دہلی میں جہاد کی کوئی صورت نہ تھی بلکہ ایک ہنگامہ فساد بر پا تھا، وہ یہ سمجھ کر اپنے وطن چلا گیا۔ ' ' دَر اَصل مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی جو جنت المعلٰی میں شیخ العرب والعجم حضرت حاجی اِمداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہما کے ساتھ مدفون ہیں، خود ایک جلیل القدر شخصیت اَور عظیم جماعت ِمجاہدین کے نمائندہ تھے۔ مولانا رحمت اللہ اَور حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہما دونوں ہی اَنگریز کے پنجۂ اِستبداد سے بچ نکلنے میں بفضل ِ اِلٰہی کامیاب ہوگئے۔ مکہ مکرمہ سے ہندوستان میں اُمورِ سیاسیہ کی قیادت فرماتے رہے، مولانا رحمت اللہ نے تو قسطنطنیہ پہنچ کر سلطانِ ترکی کے یہاں اِعتماد بھی حاصل کر لیا تھا۔ اِن حضرات نے اگرچہ اَنگریز سے جہاد بالسیف کیا لیکن پھر بھی بحمداللہ یہ محفوظ رہے اَور اِن کے ساتھی اَور قائم مقام اَکابر بھی، بظاہر اِس کی وجہ اِن حضرات کا تدبر، حسن ِسیاست و کار گردگی اَور اُس علاقہ کے عوام و خواص کا ہم خیال سمجھدار اَور صاحب ِ فراست ہونا تھا۔ شمس العلماء اِن اَکا بر کے ساتھ پڑھے ہوئے تھے مگر اَپنی کتاب میں اَندازِ بیان اَجنبیانہ اِختیار کیا۔ دیوبند کے رقبے کا بڑاحصہ سیور غال کے طور پر تھا۔ آئین ِ اَکبری میں دیوبند کے دسویں حصہ کو سیور غال بتلایا گیا ہے اِس کے بعد بھی اُس میں مغل بادشاہوں کی طرف سے وقتًا فوقتًا اِضافہ ہوتا رہا ہے۔ ١٨٥٧ء کے بعد قیدو بند اَور پھانسی کی سنگین سزاؤں کے علاوہ اُن سب لوگوں کی معافی دوام زمینوں کوبحق ِسر کار ضبط کر لیا گیا۔ (تاریخ ِدیوبند ص ١٨٦) تجارت پیشہ لوگوں کے علاوہ زمیندار طبقہ کی مرفّہ ٔحالی کا اَندازہ اُن عالیشان حویلیوں سے کیا جاسکتا ہے جو اُس دَور میں تعمیر ہوئیں، تاریخ ِسہارنپور میں لکھا ہے کہ دیوبند کی بیشتر اَراضی معافی دوام تھی